سورة التوبہ - آیت 43

عَفَا اللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

خدا تجھے معاف کرے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تونے کیوں ان کو رخصت دی ، اس سے پہلے کہ تجھے عذر میں سچے اور جھوٹے معلوم ہوں (ف ٢) ۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہ نبی کریم (ﷺ) کو کہا جا رہا ہے کہ جہاد میں عدم شرکت کی اجازت مانگنے والوں کو تو نے کیوں بغیر یہ تحقیق کئے کہ اس کے پاس معقول عذر بھی ہے یا نہیں؟ اجازت دے دی۔ لیکن اس توبیخ میں بھی پیار کا پہلو غالب ہے، اس لئے اس کوتاہی پر معافی کی وضاحت پہلے کر دی گئی ہے۔ یاد رہے یہ تنبیہ اس لئے کی گئی ہے کہ اجازت دینے میں عجلت کی گئی اور پورے طور پر تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ ورنہ تحقیق کے بعد ضرورت مندوں کو اجازت دینے کی آپ کو اجازت حاصل تھی۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے۔ ﴿فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ﴾ ( النور -62) ”جب یہ لوگ تجھ سے اپنے بعض کاموں کی وجہ سے اجازت مانگیں، تو جس کو تو چاہے، اجازت دے دے“۔ جس کو چاہے کا مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس معقول عذر ہو، اسے اجازت دینے کا حق تجھے حاصل ہے۔