سورة التوبہ - آیت 42

لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلَٰكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ ۚ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اگر کچھ مال نزدیک ہوتا ، اور سفر ہلکا ہوتا ، تو ضرور تیرے ساتھ چلتے ، لیکن مسافت بعید نظر آتی ہے ، اور اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم چل سکتے ، تو ضرور تمہارے ساتھ نکلتے (جھوٹی قسموں سے) اپنی جانیں ہلاک کرتے ہیں ‘ اور خدا جانتا ہے ، کہ وہ جھوٹے ہیں۔ (ف ١)

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* یہاں سے ان لوگوں کا بیان شروع ہو رہا ہے جنہوں نے عذر اور معذرت کر کے نبی (ﷺ) سے اجازت لے لی تھی دراں حالانکہ ان کے پاس حقیقت میں کوئی عذر نہیں تھا۔ ”عَرَضٌ“ سے مراد جو دنیاوی منافع سامنے آئیں مطلب ہے مال غنیمت۔ ** یعنی آپ (ﷺ) کے ساتھ شریک جہاد ہوتے۔ لیکن سفر کی دوری نے انہیں حیلے تراشنے پر مجبور کر دیا۔ *** یعنی جھوٹی قسمیں کھا کر۔ کیونکہ جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہے۔