أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِن دُونِ اللَّهِ وَلَا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اور گمان کرتے ہو کہ تم (جہاد سے) چھوٹ جاؤ گے حالانکہ ابھی خدا نے یہ بھی ظاہر نہیں کیا کہ کون کون تم میں سے جہاد کرنے والے ہیں ، اور کون کون ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کے سواکسی کو بھیدی دوست نہیں رکھا اور اللہ کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے (ف ١) ۔
1- یعنی بغیر امتحان اور آزمائش کے۔ 2- گویا جہاد کے ذریعے امتحان لیا گیا۔ 3- ”وَلِيجَةٌ“، گہرے اور دلی دوست کو کہتے ہیں مسلمانوں کو چونکہ اللہ اور رسول کے دشمنوں سے محبت کرنے اور دوستانہ تعلقات رکھنے سے منع کیا گیا تھا لہذا یہ بھی آزمائش کا ایک ذریعہ تھا، جس سے مخلص مومنوں کو دوسروں سے ممتاز کیا گیا۔ 4- مطلب یہ ہے کہ اللہ کو پہلے ہی ہرچیز کا علم ہے۔ لیکن جہاد کی حکمت یہ ہے کہ اس سے مخلص اور غیر مخلص، فرماں بردار اور نافرمان بندے نمایاں ہو کر سامنے آجاتے، جنہیں ہر شخص دیکھ اور پہچان لیتا ہے۔