سورة الانفال - آیت 38

قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَنتَهُوا يُغْفَرْ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ وَإِن يَعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

کافروں سے کہہ دے اگر باز آئیں ، تو جو کچھ ہوچکا ہے ، معاف ہوجائے گا اور جو (لڑنے کو) پھر آئیں ، تو اگلوں کی عادت واقع ہوچکی ہے ۔

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* باز آجانے کا مطلب، مسلمان ہونا ہے، جس طرح حدیث میں بھی ہے (جس نے اسلام قبول کر کے نیکی کا راستہ اپنا لیا، اس سے اس کے گناہوں کی باز پرس نہیں ہوگی جو اس نےجاہلیت میں کیے ہونگے اور جس نےاسلام لا کر بھی برائی نہ چھوڑی، اس سے اگلےپچھلے سب عملوں کا مؤاخذہ ہوگا۔ (صحيح بخاری، كتاب استتابة المرتدين- وصحيح مسلم- كتاب الإيمان، باب هل يؤاخذ بأعمال الجاهلية) ایک اور حدیث میں ہے [ الإسْلامُ يَجُبُّ مَا قَبْلَهُ ] (مسند أحمد ۔ جلد 4، ص 199) ”اسلام ماقبل کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے“۔ ** یعنی اگر وہ اپنے کفر وعناد پر قائم رہے تو جلد یا بہ دیر عذاب الٰہی کے مورد بن کر رہیں گے۔