كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ
جیسے کہ تجھے (اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) تیرے رب نے سچائی کے ساتھ تیرے گھر سے نکالا ، اور مسلمانوں کی ایک جماعت راضی نہ تھی (ف ١) ۔
1- یعنی جس طرح مال غنیمت کی تقسیم کا معاملہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا باعث بنا ہوا تھا۔ پھر اسے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے حوالہ کردیا گیا تو اسی میں مسلمانوں کی بہتری تھی، اسی طرح آپ کا مدینہ سے نکلنا، اور پھر آگے چل کر تجارتی قافلے کے بجائے، لشکر قریش سے مدبھیڑ ہوجانا، گو بعض طبائع کے لیے ناگوار تھا، لیکن اس میں بھی بالاخر فائدہ مسلمانوں ہی کا ہوگا۔ 2- یہ ناگواری لشکر قریش سے لڑنے کے معاملے میں تھی، جس کا اظہار چند ایک افراد کی طرف سے ہوا اور اس کی وجہ بھی صرف بے سروسامانی تھی۔ اس کا تعلق مدینہ سے نکلنے سے نہیں ہے۔