وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور اللہ کے سب نام اچھے ہیں ، سو تم ان سے اسے پکارو ، اور انہیں چھوڑ دو ، جو اس کے ناموں میں کجی کی راہ چلتے ہیں ، وہ اپنے کئے کی سزا پائیں گے (ف ٢) ۔
1- ”حُسْنَى“ أَحْسَنُ کی تانیث ہے ۔ اللہ کے ان اچھے ناموں سے مراد اللہ کے وہ نام ہیں جن سے اس کی مختلف صفات، اس کی عظمت وجلالت اور اس کی قدرت وطاقت کا اظہار ہوتا ہے ۔ صحیحین کی حدیث میں ان کی تعداد 99 (ایک کم سو) بتائی گئی ۔ اور فرمایا کہ ”جو ان کو شمار کرے گا، جنت میں داخل ہوگا، اللہ تعالیٰ طاق ہے طاق کو پسند فرماتا ہے“۔ ( بخاری، كتاب الدعوات، باب لله مائة اسم غير واحد- مسلم، كتاب الذكر، باب في أسماء الله تعالى وفضل من أحصاها)، شمار کرنے کا مطلب ہے: ان پر ایمان لانا، یا ان کو گننا اور انہیں ایک ایک کرکے بطور تبرک اخلاص کے ساتھ پڑھنا، یا ان کا حفظ، ان کے معانی کا جاننا اور ان سے اپنے کو متصف کرنا۔ ( مرقاۂ شرح مشکوٰۂ ، کتاب الدعوات، باب اسماء اللہ تعالیٰ ) بعض روایات میں ان 99 ناموں کو ذکر کیا گیا ہے لیکن یہ روایات ضعیف ہیں اور علما نے انہیں مدرج قرار دیا ہے یعنی راویوں کا اضافہ۔ وہ نبی (ﷺ) کی حدیث کا حصہ نہیں ہیں۔ نیز علما نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ اللہ کے ناموں کی تعداد 99 میں منحصر نہیں ہے۔ بلکہ اس سے زیادہ ہیں۔ (ابن کثیر وفتح القدیر)۔ 2- ”الحاد“ کے معنی ہیں کسی ایک طرف مائل ہونا۔ اسی سے لحد ہے جو اس قبر کو کہا جاتا ہے جو ایک طرف بنائی جاتی ہے۔ دین میں الحاد اختیار کرنے کا مطلب کج روی اور گمراہی اختیار کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں الحاد (کج روی) کی تین صورتیں ہیں۔ (1)۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں تبدیلی کر دی جائے ۔ جیسے مشرکین نے کیا ۔ مثلاً اللہ کے ذاتی نام سے اپنے ایک بت کا نام لات اور اس کے صفاتی ناموں عَزِيزٌ سے عُزَّى ٰبنا لیا۔ (2)۔ یا اللہ کے ناموں میں اپنی طرف سے اضافے کر لینا، جس کا حکم اللہ نے نہیں دیا۔ (3)۔ یا اس کے ناموں میں کمی کر دی جائے مثلاً اسے کسی ایک ہی مخصوص نام سے پکارا جائے اور دوسرے صفاتی ناموں سے پکارنے کو برا سمجھا جائے۔ (فتح القدیر) اللہ کے ناموں میں الحاد کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ان میں تاویل یا تعطیل یا تشبیہ سے کام لیا جائے (ایسر التفاسیر) جس طرح معتزلہ، معطلہ اور مشبہ وغیرہ گمراہ فرقوں کا طریقہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان سب سے بچ کر رہو۔