وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ
اور ہم نے آدمیوں اور جنوں میں اکثروں کو دوزخ کے لئے پیدا کیا ہے ، ان کے دل ہیں جن سے سمجھتے نہیں ، اور ان کی آنکھیں ہیں ان سے دیکھتے نہیں ‘ اور ان کے کان ہیں ان سے سنتے نہیں وہ مثل چارپایوں کے ہیں ، بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ وہی غافل لوگ ہیں (ف ١) ۔
1- اس کا تعلق تقدیر سے ہے ۔ یعنی ہر انسان اور جن کی بابت اللہ کو علم تھا کہ وہ دنیا میں جاکر اچھے یا برے کیا عمل کرے گا، اس کے مطابق اس نے لکھ رکھا ہے ۔ یہاں انہی دوزخیوں کا ذکر ہے جنہیں اللہ کے علم کے مطابق دوزخ والے ہی کام کرنے تھے۔ آگے ان کی مزید صفات بیان کرکے بتا دیا گیا کہ جن لوگوں کے اندر یہ چیزیں اسی انداز میں ہوں جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے، تو سمجھ لو کہ اس کا انجام برا ہے۔ 2- یعنی دل، آنکھ، کان یہ چیز یں اللہ نے اس لیے دی ہیں کہ انسان ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پروردگار کو سمجھے، اس کی آیات کامشاہدہ کرے اور حق کی بات کو غور سے سنے۔ لیکن جو شخص ان مشاعر سے یہ کام نہیں لیتا، وہ گویا ان سے عدم انتفاع (فائدہ نہ اٹھانے) میں چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہے۔ اس لیے کہ چوپایے تو پھر بھی اپنے نفع نقصان کا کچھ شعور رکھتے ہیں اور نفع والی چیزوں سے نفع اٹھاتے اور نقصان دینے والی چیزوں سے بچ کر رہتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے اعراض کرنے والے شخص کے اندر تو یہ تمیز کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہو جاتی ہے کہ اس کے لیے مفید چیز کون سی ہے اور مضر کون سی؟ اسی لیے اگلے جملے میں انہیں غافل بھی کہا گیا ہے۔