فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَٰذِهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ ۗ أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
پھر جب ان کے پاس کوئی خوشحالی آتی تھی تو کہتے تھے کہ یہ ہمارے لئے ہے اور اگر کوئی بدحالی پیش آتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کی شومی بتلاتے تھے ، سن لے ، ان کی شومی اللہ کے پاس ہے ، مگر اکثر شخص نہیں جانتے ۔
1- ”حَسَنَةٌ“ (بھلائی) سے مراد غلے اور پھلوں کی فراوانی اور”سيِّئَةٌ“ (برائی) سے اس کے برعکس اور قحط سالی اور پیداوار میں کمی۔ حَسَنَةٌ کا سارا کریڈٹ خود لے لیتے کہ یہ ہماری محنت کا ثمرہ ہے اور بدحالی کا سبب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کو قرار دیتے کہ یہ تم لوگوں کی نحوست کے اثرات ہمارے ملک پر پڑ رہے ہیں۔ 2- ”طَآئِرٌ“ کے معنی ہیں ”اڑنے والا“ یعنی پرندہ ۔ چوں کہ پرندے کے بائیں یا دائیں اڑنے سے وہ لوگ نیک فالی یا بدفالی لیا کرتے تھے۔ اس لیے یہ لفظ مطلق فال کے لیے بھی استعمال ہونے لگ گیا اور یہاں یہ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خیر یا شر، جو خوش حالی یا قحط سالی کی وجہ سے انہیں پہنچتا ہے، اس کے اسباب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، موسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیروکار اس کا سبب نہیں۔ کا مطلب ہوگا کہ ان کی بدشگونی کا سبب اللہ کے علم میں ہے اور وہ ان کا کفر وانکار ہے نہ کہ کچھ اور۔ یا اللہ کی طرف سے ہے اور اس کی وجہ ان کا کفر ہے۔