سورة الاعراف - آیت 89

قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللَّهُ مِنْهَا ۚ وَمَا يَكُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِيهَا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّنَا ۚ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۚ عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا ۚ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اگر ہم بعد اس کے کہ خدا نے تمہارے مذہب سے ہمیں نجات دی ہم اس میں لوٹ آئیں تو بےشک ہم نے خدا پر جھوٹ باندھا ہے اور ہمیں لائق نہیں ، کہ ہم اس میں لوٹیں ، مگر اللہ ہمارا رب ہی چاہئے علم کے لحاظ سے ہمارا رب ہر شئے پر حاوی ہے ہم نے اللہ پر توکل کیا ، اے ہمارے رب ہم میں اور ہماری قوم میں تو حق کیساتھ فیصلہ کر دے ، اور تو بہتر منصف ہے ۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی اگر ہم دوبارہ اس دین آبائی کی طرف لوٹ آئے ، جس سے اللہ نے ہمیں نجات دی، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے ایمان وتوحید کی دعوت دے کر اللہ پر جھوٹ باندھا تھا؟ مطلب یہ تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہماری طرف سے ایسا ہو ۔ 2- اپنا عزم ظاہر کرنے کے بعد معاملہ اللہ کی مشیت کے سپرد کر دیا۔ یعنی ہم تو اپنی رضا مندی سے اب کفر کی طرف نہیں لوٹ سکتے۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو بات اور ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ ﴿حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ کی طرح تعلیق بالمحال ہے۔ 3- کہ وہ ہمیں ایمان پر ثابت رکھے گا اور ہمارے اور کفر واہل کفر کے درمیان حائل رہے گا، ہم پر اپنی نعمت کا اتمام فرمائے گا اور اپنے عذاب سے محفوظ رکھے گا ۔ 4- اور اللہ جب فیصلہ کر لیتا ہے تو وہ یہی ہوتا ہے کہ اہل ایمان کو بچا کر مکذبین اور متکبرین کو ہلاک کر دیتا ہے ۔ یہ گویا عذاب الٰہی کے نزول کا مطالبہ ہے ۔