وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ
اور ہم نے تمہیں زمین میں جگہ دی اور اس میں تمہارے لئے روزیاں پیدا کیں ، تم تھوڑا شکر کرتے ہو ۔
اللہ تعالیٰ کے احسانات اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ اس نے زمین اپنے بندوں کے رہنے سہنے کے لئے بنائی ۔ اس میں مضبوط پہاڑ گاڑ دیئے کہ ہلے جلے نہیں ، اس میں چشمے جاری کر دیئے ، اس میں منزلیں اور گھر بنانے کی طاقت انسان کو عطا فرمائی اور بہت سی نفع کی چیزیں اس لیے پیدا فرمائیں ۔ ابر مقرر کر کے اس میں سے پانی برسا کر ان کے لیے کھیت اور باغات پیدا کئے ۔ تلاش معاش کے وسائل مہیا فرمائے ۔ تجارت اور کمائی کے طریقے سکھا دیئے ۔ باوجود اس کے اکثر لوگ پوری شکر گزاری نہیں کرتے ۔ ایک آیت میں فرمان ہے «وَإِن تَعُدٰوا نِعْمَتَ اللہِ لَا تُحْصُوہَا إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّارٌ» ۱؎ (14-إبراہیم:34) یعنی ’ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے بیٹھو تو یہ بھی تمہارے بس کی بات نہیں لیکن انسان بڑا ہی ناانصاف اور ناشکرا ہے ۔ ‘ «مَعَایِشَ» تو جمہور کی قرأت ہے لیکن عبدالرحمٰن بن ہرمز اعرج «مَعَاۤیِـْش» پڑھتے ہیں اور ٹھیک وہی ہے جس پر اکثریت ہے ۔ اس لیے کہ «مَعَایِشَ» جمع ہے «مَعِیْشَتہٌ» کی ۔ اس کا باب «عَاشَ یَعِیْشُ عَیْشًا» ہے ۔ «مَعِیْشَتہٌ» کی اصل «مَعِیْشَتہٌ» ہے ۔ کسرہ «یا» پر تقلیل تھا ، نقل کر کے ماقبل کو دیا «مَعِیْشَتہٌ» ہو گیا لیکن جمع کے وقت پھر کسرہ «یا» پر آ گیا کیونکہ اب ثقل نہ رہا ۔ پس «مَفَاعِلٌ» کے وزن پر «مَعَایِشَ» ہو گیا کیونکہ اس کلمہ میں «یا» اصلی ہے ۔ بخلاف «مدائن» ، «صحائف» اور «بصائر» کے جو «مدینہ» ، «صحیفہ» اور «بصیرہ» کی جمع ہے باب «مدن» ، «صحف» اور «ابصر» سے ۔ ان میں چونکہ «یا» زائد ہے اس لیے ہمزہ دی جاتی ہے اور «مفاعل» کے وزن پر جمع آتی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔