وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ ۚ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور ان دن تول حق ہے سو جن کی تول بھاری ہوگی ، وہی نجات پائیں گے ۔
میزان اور اعمال کا دین قیامت کے دن نیکی ، بدی ، انصاف و عدل کے ساتھ تولی جائے گی ، اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہ کرے گا ۔ جیسے فرمان ہے «وَنَضَعُ الْمَوَازِینَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَإِن کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَیْنَا بِہَا وَکَفَیٰ بِنَا حَاسِبِینَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:47) ’ قیامت کے دن ہم عدل کا ترازو رکھیں گے ، کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا ، رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہو گا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب لینے میں کافی ہیں ۔ ‘ اور آیت میں ہے : ’ اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا ، وہ نیکی کو بڑھاتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم عطا فرماتا ہے ۔ ‘ ۱؎ (4-النساء:40) سورۃ القارعہ میں فرمایا : ’ جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا اسے عیش و نشاط کی زندگی ملی اور جس کا نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہو گیا اس کا ٹھکانا ہاویہ ہے جو بھڑکتی ہوئی آگ کے خزانے کا نام ہے ۔ ‘ ۱؎ (101-القارعۃ:6-11) اور آیت میں ہے «فَإِذَا نُفِخَ فِی الصٰورِ فَلَا أَنسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَلَا یَتَسَاءَلُونَ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُہُ فَأُولٰئِکَ الَّذِینَ خَسِرُوا أَنفُسَہُمْ فِی جَہَنَّمَ خَالِدُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:101) یعنی ’ جب نفحہ پھونک دیا جائے گا ، سارے رشتے ناطے اور نسب حسب ٹوٹ جائیں گے ، کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہو گا ۔ اگر تول میں نیک اعمال بڑھ گئے تو فلاح پا لی ورنہ خسارے کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ۔ ‘ فصل کوئی تو کہتا ہے کہ خود اعمال تولے جائیں گے ، کوئی کہتا ہے : نامہ اعمال تولے جائیں گے ۔ کوئی کہتا ہے : خود عمل کرنے والے تولے جائیں گے ۔ ان تینوں قولوں کو اس طرح جمع کرنا بھی ممکن ہے کہ ہم کہیں یہ سب صحیح ہیں ۔ کبھی اعمال تولے جائیں گے ، کبھی نامہ اعمال ، کبھی خود اعمال کرنے والے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ان تینوں باتوں کی دلیلیں بھی موجود ہیں ۔ پہلے قول کا مطلب یہ ہے کہ اعمال گو ایک بےجسم چیز ہیں لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں جسم عطا فرمائے گا جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے : { سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران قیامت کے دن دو سائبانوں کی یا دو ابر کی یا پر پھیلائے ہوئے پرندوں کے دو جھنڈ کی صورت میں آئیں گی ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:805) اور حدیث میں ہے کہ { قرآن اپنے قاری اور عامل کے پاس ایک نوجوان خوش شکل ، نورانی چہرے والے کی صورت میں آئے گا ۔ یہ اسے دیکھ کر پوچھے گا کہ تو کون ہے ؟ یہ کہے گا : میں قرآن ہوں جو تجھے راتوں کی نیند نہیں سونے دیتا تھا اور دنوں میں پانی پینے سے روکتا تھا ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3781 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا براء رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ، جس میں قبر کے سوال جواب کا ذکر ہے ، اس میں یہ بھی فرمان ہے کہ { مومن کے پاس ایک نوجوان خوبصورت ، خوشبودار آئے گا ۔ یہ اس سے پوچھے گا کہ تو کون ہے ؟ وہ جواب دے گا کہ میں تیرا نیک عمل ہوں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:287/4:صحیح) اور کافر و منافق کے پاس اس کے برخلاف شخص کے آنے کا بیان ہے ۔ یہ تو تھیں پہلے قول کی دلیلیں ۔ دوسرے قول کی دلیلیں یہ ہیں : ایک حدیث میں ہے کہ { ایک شخص کے سامنے اس کے گناہوں کے ننانوے دفتر پھیلائے جائیں گے جس میں سے ہر ایک اتنا بڑا ہو گا جتنی دور تک نظر پہنچے ۔ پھر ایک پرچہ نیکی کا لایا جائے گا جس پر «لَا اِلٰہَ اِلَا اللہُ» ہو گا ۔ یہ کہے گا : یااللہ ! اتنا سا پرچہ ان دفتروں کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو اس سے بےخطر رہ کہ تجھ پر ظلم کیا جائے ۔ اب وہ پرچہ ان دفتروں کے مقابلہ میں نیکی کے پلڑے میں رکھا جائے گا تو وہ سب دفتر اونچے ہو جائیں گے اور یہ سب سے زیادہ وزن دار اور بھاری ہو جائیں گے ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:2639 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) [ ترمذی ] تیسرا قول بھی دلیل رکھتا ہے : حدیث میں ہے : { ایک بہت موٹا تازہ گنہگار انسان اللہ کے سامنے لایا جائے گا لیکن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی وزن اللہ کے پاس اس کا نہ ہو گا ۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی «اُولٰیِٕکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ وَلِقَایِٕہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا» ۱؎ (18-الکہف:105) ’ ہم قیامت کے دن ان کے لیے کوئی وزن قائم نہ کریں گے ۔ ‘ } ۱؎ (صحیح بخاری:4729) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تعریف میں جو حدیثیں ہیں ، ان میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ان کی پتلی پنڈلیوں پہ نہ جانا ۔ اللہ کی قسم ! اللہ کے نزدیک یہ احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزن دار ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:420/1:حسن)