وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَل لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَّا يُؤْمِنُونَ
اور کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر پردہ پڑا ہے (نہیں) بلکہ خدا نے ان پر لعنت کی ان کے کفر کے سبب سے ، پس تھوڑے ہیں جو ایمان لاتے ہیں ۔ (ف ٢)
غلف کے معنی یہودیوں کا ایک قول یہ بھی تھا کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہیں یعنی یہ علم سے بھرپور ہیں اب ہمیں نئے علم کی کوئی ضرورت نہیں ۔ (تفسیر قرطبی:25/2) اس لیے جواب ملا کہ غلاف نہیں بلکہ لعنت الہیہ کی مہر لگ گئی ہے ایمان نصیب ہی نہیں ہوتا خلف کو خلف بھی پڑھا گیا ہے یعنی یہ علم کے برتن ہیں اور جگہ قرآن کریم میں ہے «وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِی أَکِنَّۃٍ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَیْہِ وَفِی آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِن بَیْنِنَا وَبَیْنِکَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ» ( 41 ۔ فصلت : 5 ) یعنی جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو اس چیز سے ہمارے دل پردے اور آڑ میں اور ہمارے دلوں کے درمیان پردہ ہے آڑ ہے ان پر مہر لگی ہوئی ہے وہ اسے نہیں سمجھتے اسی بنا پر وہ نہ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں نہ اسے یاد رکھتے ہیں ۔ایک حدیث میں بھی ہے کہ بعض دل غلاف والے ہوتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوتا ہے یہ کفار کے دل ہوتے ہیں۔(مسند احمد:17/3-18:ضعیف) سورۃ نساء میں بھی ایک آیت اسی معنی کی ہے «وَقَوْلِہِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ» ( 4-النسأ-155 ) تھوڑا ایمان لانے کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ان میں سے بہت کم لوگ ایماندار ہیں اور دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ ان کا ایمان بہت کم ہے یعنی قیامت ثواب عذاب وغیرہ کا قائل ۔ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھنے والے توراۃ کو اللہ تعالیٰ کی کتاب مانتے ہیں مگر اس پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو مان کر اپنا ایمان پورا نہیں کرتے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر کر کے اس تھوڑے ایمان کو بھی غارت اور برباد کر دیتے ہیں تیسرے معنی یہ ہیں کہ یہ سرے سے بے ایمان ہیں کیونکہ عربی زبان میں ایسے موقعہ پر بھی ایسے الفاظ بولے جاتے ہیں مثلاً میں نے اس جیسا بہت ہی کم دیکھا مطلب یہ ہے کہ دیکھا ہی نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔