ثُمَّ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ تَمَامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُم بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ
پھرہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی ، نیکو کار کے لئے پوری نعمت ، اور ہر شئے کی پوری تفصیل اور ہدایت اور رحمت ، شاید کہوہ اپنے رب کی ملاقات کا یقین کریں (ف ٢) ۔
جنوں نے قرآن حکیم سنا امام ابن جریر نے تو لفظ «ثُمَّ» کو ترتیب کے لیے مانا ہے یعنی ان سے یہ بھی کہہ دے اور ہماری طرف سے یہ خبر بھی پہنچا دے ، لیکن میں کہتا ہوں «ثُمَّ» کو ترتیب کیلئے مان کر خبر کا خبر پر عطف کر دیں تو کیا حرج ؟ ایسا ہوتا ہے اور شعروں میں موجود ہے چونکہ قرآن کریم کی مدح آیت «وَأَنَّ ہٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا» ۱؎ (6-الأنعام:153) میں گزری تھی اس لیے اس پر عطف ڈال کر توراۃ کی مدح بیان کر دی ۔ جیسے کہ اور بھی بہت سی آیتوں میں ہے - چنانچہ فرمان ہے آیت «وَمِن قَبْلِہِ کِتَابُ مُوسَیٰ إِمَامًا وَرَحْمَۃً وَہٰذَا کِتَابٌ مٰصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِیًّا» ۱؎ (46-الأحقاف:12) یعنی ’ اس سے پہلے توراۃ امام رحمت تھی اور اب یہ قرآن عربی تصدیق کرنے والا ہے ‘ ۔ اسی سورت کے اول میں ہے آیت «قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ الَّذِیْ جَاءَ بِہٖ مُوْسٰی نُوْرًا وَّہُدًی لِّلنَّاسِ» ۱؎ (6-الأنعام:91) ، اس آیت میں بھی تورات کے بیان کے بعد «وَہٰذَا کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ» ۱؎ (6-الانعام:92) اس قرآن کے نزول کا بیان ہے ۔ کافروں کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے آیت «فَلَمَّا جَاءَہُمُ الْحَقٰ مِنْ عِندِنَا قَالُوا لَوْلَا أُوتِیَ مِثْلَ مَا أُوتِیَ مُوسَیٰ» ۱؎ (28-القصص:48) ، ’ جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آ پہنچا تو کہنے لگے اسے اس جیسا کیوں نہ ملا جو موسیٰ علیہ السلام کو ملا تھا ‘ ، جس کے جواب میں فرمایا گیا «أَوَلَمْ یَکْفُرُوا بِمَا أُوتِیَ مُوسَیٰ مِن قَبْلُ قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاہَرَا وَقَالُوا إِنَّا بِکُلٍّ کَافِرُونَ» ۱؎ (28-القصص:48) ’ کیا انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی اس کتاب کے ساتھ کفر نہیں کیا تھا ؟ کیا صاف طور سے نہیں کہا تھا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں اور ہم تو ہر ایک کے منکر ہیں ‘ ۔ جنوں کا قول بیان ہوا ہے کہ «قَالُوا یَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا کِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَیٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَہْدِی إِلَی الْحَقِّ وَإِلَیٰ طَرِیقٍ مٰسْتَقِیمٍ» ۱؎ (46-الأحقاف:30) ’ انہوں نے اپنی قوم سے کہا ہم نے وہ کتاب سنی ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد اتری ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کو سچا کہتی ہیں اور راہ حق کی ہدایت کرتی ہیں ‘ ۔ «وَکَتَبْنَا لَہُ فِی الْأَلْوَاحِ مِن کُلِّ شَیْءٍ» ۱؎ (7-الأعراف:145) ’ وہ کتاب جامع اور کامل تھی ‘ ۔ شریعت کی جن باتوں کی اس وقت ضرورت تھی سب اس میں موجود تھیں یہ احسان تھا نیک کاروں کی نیکیوں کے بدلے کا ۔ جیسے فرمان ہے ’ احسان کا بدلہ احسان ہی ہے ‘ ۔ اور جیسے فرمان ہے کہ «وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ أَئِمَّۃً یَہْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَکَانُوا بِآیَاتِنَا یُوقِنُونَ» (32-السجدہ:24) ’ بنی اسرائیلیوں کو ہم نے ان کا امام بنا دیا جبکہ انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیتوں پر یقین رکھا ‘ ۔ غرض یہ بھی اللہ کا فضل تھا اور «ہَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ» ۱؎ (55-الرحمن:60) ’ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں ہے ‘ ۔ احسان کرنے والوں پر اللہ بھی احسان پورا کرتا ہے یہاں اور وہاں بھی ۔ امام ابن جریر «الَّذِی» کو مصدریہ مانتے ہیں جیسے آیت «وَخُضْتُمْ کَالَّذِی خَاضُوا» ۱؎ (9-التوبۃ:69) میں ۔ ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کا شعر ہے «وَثَبَّتَ اللَّہ مَا آتَاک مِنْ حُسْن» «فِی الْمُرْسَلِینَ وَنَصْرًا کَاَلَّذِی نُصِرُوا» اللہ تیری اچھائیاں بڑھائے اور اگلے نبیوں کی طرح تیری بھی مدد فرمائے ۔ بعض کہتے ہیں یہاں «الَّذِی» معنی میں «الَّذِینَ» کا ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت «تَمَامًا عَلَی الَّذِینَ أَحْسَنُوا» ہے ۔ پس مومنوں اور نیک لوگوں پر اللہ کا یہ احسان ہے اور پورا احسان ہے ۔ بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں ” مراد اس سے انبیاء علیہم السلام اور عام مومن ہیں ۔ یعنی ان سب پر ہم نے اس کی فضیلت ظاہر کی ۔ جیسے فرمان ہے آیت «قَالَ یٰمُوْسٰٓی اِنِّی اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَبِکَلَامِیْ» ۱؎ (7-الأعراف:144) ، یعنی ’ اے موسیٰ [ علیہ السلام ] میں نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے تجھے لوگوں پر بزرگی عطا فرمائی ‘ ۔ ہاں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی اس بزرگی سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم الانبیاء ہیں اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام جو خلیل اللہ ہیں مستثنیٰ ہیں بہ سبب ان دلائل کے جو وارد ہو چکے ہیں ۔ یحییٰ بن یعمر «أَحْسَنُ ہُوَ» کو مخذوف مان کر «أَحْسَنُ» پڑھتے تھے ، ہو سکتا ہے ؟ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں اس قرأت کو جائز نہیں رکھوں گا اگرچہ عربیت کی بنا پر اس میں نقصان نہیں ۔ آیت کے اس جملے کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پر احسان رب کو تمام کرنے کیلئے یہ اللہ کی کتاب ان پر نازل ہوئی ، ان دونوں کے مطلب میں کوئی تفاوت نہیں ۔ پھر تورات کی تعریف بیان فرمائی کہ اس میں ہر حکم بہ تفصیل ہے اور وہ ہدایت و رحمت ہے تاکہ لوگ قیامت کے دن اپنے رب سے ملنے کا یقین کر لیں ۔ پھر قرآن کریم کی اتباع کی رغبت دلاتا ہے اس میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور اس پر عمل کرنے کی ہدایت فرماتا ہے اور اس کی طرف لوگوں کو بلانے کا حکم دیتا ہے برکت سے اس کا وصف بیان فرماتا ہے کہ جو بھی اس پر کار بند ہو جائے وہ دونوں جہان کی برکتیں حاصل کرے گا اس لیے کہ یہ اللہ کی طرف مضبوط رسی ہے ۔