وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اور یتیم کے مال کے نزدیک نہ جاؤ مگر جس طرح بہتر ہو ، یہاں تک کہ اپنی جوانی کو پہنچے اور انصاف کے ساتھ ماپ اور تول پوری کرو ، ہم کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور جب بولو تو انصاف سے بولو ، اگرچہ قرابتی کیوں نہ ہو ، اور اللہ کا عہد پورا کرو ، یہ باتیں ہیں جن کا اس نے تمہیں حکم دیا ہے شاید تم سوچو ۔
یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ابو داؤد وغیرہ میں ہے کہ { جب آیت «وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْیَتِیمِ» اور آیت «إِنَّ الَّذِینَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَیٰ ظُلْمًا» ۱؎ (4-النساء:10) نازل ہوئیں تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیموں کا کھانا پینا اپنے کھانے پینے سے بالکل الگ تھلگ کردیا اس میں علاوہ ان لوگوں کے نقصان اور محنت کے یتیموں کا نقصان بھی ہونے لگا اگر بچ رہا تو یا تو وہ باسی کھائیں یا سڑ کر خراب ہو جائے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر ہوا تو آیت «وَیَسْــَٔـلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَیْرٌ وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ» ۱؎ (2-البقرۃ:220) نازل ہوئی کہ ’ ان کے لیے خیر خواہی کرو ان کا کھانا پینا ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں وہ تمہارے بھائی ہیں ‘ ۔ اسے پڑھ کر سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کا کھانا اپنے ساتھ ملا لیا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2871،قال الشیخ الألبانی:حسن) یہ حکم ان کے سن بلوغ تک پہنچنے تک ہے گو بعض نے تیس سال بعض نے چالیس سال اور بعض نے ساٹھ سال کہے ہیں لیکن یہ سب قول یہاں مناسب نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر حکم فرمایا کہ ’ لین دین میں ، ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرو ، ان کے لیے ہلاکت ہے جو لیتے وقت پورا لیں اور دیتے وقت کم دیں ، ان امتوں کو اللہ نے غارت کر دیا جن میں یہ بد خصلت تھی ‘ -جامع ابو عیسیٰ ترمذی میں ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپنے اور تولنے والوں سے فرمایا : { تم ایک ایسی چیز کے والی بنائے گئے ہو ، جس کی صحیح نگرانی نہ رکھنے والے تباہ ہو گئے } } - ۱؎ (سنن ترمذی:1217،قال الشیخ الألبانی:موقوفاً صحیح) پھر فرماتا ہے ’ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ہم نہیں لادتے ‘ یعنی اگر کسی شخص نے اپنی طاقت بھر کوشش کرلی دوسرے کا حق دے دیا ، اپنے حق سے زیادہ نہ لیا ، پھر بھی نادانستگی میں غلطی سے کوئی بات رہ گئی ہو تو اللہ کے ہاں اس کی پکڑ نہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کے یہ دونوں جملے تلاوت کرکے فرمایا کہ { جس نے صحیح نیت سے وزن کیا ، تولا ، پھر بھی واقع میں کوئی کمی زیادتی بھول چوک سے ہو گئی تو اس کا مؤاخذہ نہ ہوگا } } ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:105/3:مرسل) یہ حدیث مرسل اور غریب ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ بات انصاف کی کہا کرو کہ قرابت داری کے معاملے میں ہی کچھ کہنا پڑے ‘ -جیسے فرمان ہے آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِینَ لِلہِ شُہَدَاءَ بِالْقِسْطِ» ۱؎ (5-المائدہ:8) اور سورۃ نساء میں بھی یہی حکم دیا کہ «یٰٓاَیٰھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بالْقِسْطِ شُہَدَاءَ لِلہِ» (4-النساء:135) ’ ہر شخص کو ہر حال میں سچائی اور انصاف نہ چھوڑنا چاہیئے ، جھوٹی گواہی اور غلط فیصلے سے بچنا چاہیئے ‘ ۔ اللہ کے عہد کو پورا کرو ، اس کے احکام بجا لاؤ ، اس کی منع کردہ چیزوں سے الگ رہو ، اس کی کتاب اس کے رسول کی سنت پر چلتے رہو ، یہی اس کے عہد کو پورا کرنا ہے ، انہی چیزوں کے بارے اللہ کا تاکیدی حکم ہے ، یہی فرمان تمہارے وعظ و نصیحت کا ذریعہ ہیں تاکہ تم جو اس سے پہلے نکمے بلکہ برے کاموں میں تھے ، اب ان سے الگ ہو جاؤ ۔ بعض کی قرأت میں «تَذَّکَـرُوْنَ» بھی ہے ۔