وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ ۖ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۚ ذَٰلِكَ جَزَيْنَاهُم بِبَغْيِهِمْ ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ
اور یہود پرہم نے ہر ناخن والا جانور حرام کیا ، اور گائے اور بکری میں سے ان کی چربی حرام کی ، مگر جس قدر ان کی پشت پر لگی ہو ‘ یا انتڑیوں میں ‘ یا ہڈی کے ساتھ ملی ہو ، اور یہ ہم نے انکی شرارت کے بدلے میں انکو سزا دی تھی اور ہم سچے ہیں (ف ١) ۔
مزید تفصیل متعلقہ حلال و حرام ناخن دار جانور چوپایوں اور پرندوں میں سے وہ ہیں ، جن کی انگلیاں کھلی ہوئی نہ ہوں جیسے اونٹ ، شتر مرغ ، بطخ وغیرہ ۔ سعید بن جبیر کا قول ہے کہ ” جو کھلی انگلیوں والا نہ ہو “ ۔ ایک روایت میں ان سے مروی ہے کہ ” ہر ایک جدا انگلیوں والا اور انہی میں سے مرغ ہے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے ” جیسے اونٹ ، شتر مرغ اور بہت سے پرند ، مچھلیاں ، بطخ اور اس جیسے جانور جن کی انگلیاں الگ الگ ہیں “ ۔ ان کا کھانا یہودیوں پر حرام تھا ۔ اسی طرح گائے بکری کی چربی بھی ان پر حرام تھی ۔ یہود کا مقولہ تھا کہ اسرائیل نے اسے حرام کر لیا تھا ، اس لیے ہم بھی اسے حرام کہتے ہیں ۔ ہاں جو چربی پیٹھ کے ساتھ لگی ہوئی ہو ، انتڑیوں کے ساتھ ، اوجھڑی کے ساتھ ، ہڈی کے ساتھ ہو وہ ان پر حلال تھی ، ’ یہ بھی ان کے ظلم ، تکبر اور سرکشی کا بدلہ تھا اور ہماری نافرمانی کا انجام ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِینَ ہَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَہُمْ وَبِصَدِّہِمْ عَن سَبِیلِ اللہِ کَثِیرًا» ۱؎ (4-النساء:160) ’ یہودیوں کے ظلم وستم اور راہ حق سے روک کی وجہ سے ہم نے ان پر بعض پاکیزہ چیزیں بھی حرام کر دی تھیں اور اس جزا میں ہم عادل ہی تھے اور جیسی خبر ہم نے تجھے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دی ہے ، وہی سچ اور حق ہے ‘ ۔ یہودیوں کا یہ کہنا کہ اسرائیل نے اسے حرام کیا تھا ، اس لیے ہم اسے اپنے آپ پر بھی حرام کرتے ہیں -سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو جب معلوم ہوا کہ سمرہ نے شراب فروشی کی ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اللہ اسے غارت کرے ، کیا یہ نہیں جانتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے { اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر لعنت کی کہ جب ان پر چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچنا شروع کر دیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2223) جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ والے سال فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب ، مردار ، سور اور بتوں کی خرید و فروخت حرام فرمائی ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ مردار کی چربیوں کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اس سے چمڑے رنگے جاتے ہیں اور کشتیوں پر چڑھایا جاتا ہے اور چراغ میں جلایا جاتا ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” وہ بھی حرام ہے “ ۔ پھر اس کے ساتھ ہی آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ یہودیوں کو غارت کرے ، جب ان پر چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچ کر اس کی قیمت کھانا شروع کر دی “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2236) { ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں مقام ابراہیم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور تین مرتبہ یہودیوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا : { اللہ نے ان پر چربی حرام کی تو انہوں نے اسے بیچ کر اس کی قیمت کھائی ۔ اللہ تعالیٰ جن پر جو چیز حرام کرتا ہے ان پر اس کی قیمت بھی حرام فرما دیتا ہے } ایک مرتبہ آپ مسجد الحرام میں حطیم کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے ہوئے تھے آسمان کی طرف دیکھ کر ہنسے اور یہی فرمایا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3488،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ وغیرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کے لیے گئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم عدن کی چادر اوڑھے ہوئے لیٹے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ سے چادر ہٹا کر فرمایا : { اللہ یہودیوں پر لعنت کرے کہ بکریوں کی چربی کو حرام مانتے ہوئے اس کی قیمت کھاتے ہیں } } ۔ ۱؎ (مسند بزار:2608:صحیح) ابوداؤد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے کہ { اللہ جب کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کرتا ہے تو اس کی قیمت بھی حرام فرما دیتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3488،قال الشیخ الألبانی:صحیح)