وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ
اور جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا اس میں سے نہ کھاؤ اور وہ گناہ ہے ، اور شیاطین اپنے رفیقوں کے دل میں ڈالتے ہیں ، تاکہ وہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو تم مشرک ہوجاؤ گے (ف ١) ۔
سدھائے ہوئے کتوں کا شکار یہی آیت ہے جس سے بعض علماء نے یہ سمجھا ہے کہ گو کسی مسلمان نے ہی ذبح کیا ہو لیکن اگر بوقت ذبح اللہ کا نام نہیں لیا تو اس ذبیحہ کا کھانا حرام ہے ، اس بارے میں علماء کے تین قول ہیں ایک تو وہی جو مذکور ہوا ، خواہ جان بوجھ کر اللہ کا نام نہ لیا ہو یا بھول کر ، اس کی دلیل آیت «فَکُلُوْا مِمَّآ اَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ۭاِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ» ۱؎ (5-المائدہ:4) ہے یعنی ’ جس شکار کو تمہارے شکاری کتے روک رکھیں تم اسے کھا لو اور اللہ کا نام اس پر لو ‘ - اس آیت میں اسی کی تاکید کی اور فرمایا کہ ’ یہ کھلی نافرمانی ہے ‘ یعنی اس کا کھانا یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا ۔ احادیث میں بھی شکار کے اور ذبیحہ کے متعلق حکم وارد ہوا ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تو اپنے سدھائے ہوئے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑے جس جانور کو وہ تیرے لیے پکڑ کر روک لے تو اسے کھا لے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5475) اور حدیث میں ہے { جو چیز خون بہا دے اور اللہ کا نام بھی اس پر لیا گیا ہو اسے کھا لیا کرو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5503) { جنوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا { تمہارے لیے ہر وہ ہڈی غذا ہے جس پر اللہ کا نام لیا جائے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:450) عید کی قربانی کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے کہ { جس نے نماز عید پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کر لیا وہ اس کے بدلے دوسرا جانور ذبح کر لے اور جس نے قربانی نہیں کی وہ ہمارے ساتھ عید کی نماز پڑھے پھر اللہ کا نام لے کر اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کرے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:985) { چند لوگوں نے حضور سے پوچھا کہ بعض نو مسلم ہمیں گوشت دیتے ہیں کیا خبر انہوں نے ان جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت اللہ کا نام بھی لیا یا نہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم ان پر اللہ کا نام لو اور کھا لو } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5507) الغرض اس حدیث سے بھی یہ مذہب قوی ہوتا ہے کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی سمجھا کہ «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھنا ضروری ہے اور یہ لوگ احکام اسلام سے صحیح طور پر واقف نہیں ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں کیا خبر اللہ کا نام لیتے بھی ہیں یا نہیں ؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بطور مزید احتیاط فرما دیا کہ { تم خود اللہ کا نام لے لو تاکہ بالفرض انہوں نے نہ بھی لیا ہو تو یہ اس کا بدلہ ہو جائے } ، ورنہ ہر مسلمان پر ظاہر احسن ظن ہی ہو گا ۔ دوسرا قول اس مسئلہ میں یہ ہے کہ بوقت ذبح «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کا پڑھنا شرط نہیں بلکہ مستحب ہے اگر چھوٹ جائے گوہ عمداً ہو یا بھول کر ، کوئی حرج نہیں ۔ اس آیت میں جو فرمایا گیا ہے کہ یہ فسق ہے اس کا مطلب یہ لوگ یہ لیتے ہیں کہ اس سے مراد غیر اللہ کے لیے ذبح کیا ہوا جانور ہے جیسے اور آیت میں ہے «اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ» ۱؎ (6-الأنعام:145) بقول عطاء رحمہ اللہ ان جانوروں سے روکا گیا ہے جنہیں کفار اپنے معبودوں کے نام ذبح کرتے تھے اور مجوسیوں کے ذبیحہ سے بھی ممانعت کی گئی ۔ اس کا جواب بعض متأخرین نے یہ بھی دیا ہے کہ «وَإِنَّہُ» میں واؤ حالیہ ہے تو فسق اسی وقت ہوگا جب اسے غیر اللہ کے نام کا مان لیں اور واؤ عطف کا ہو ہی نہیں سکتا ورنہ اس سے جملہ اسمیہ جریہ کا عطف جملہ فعلیہ حالیہ پر لازم آئے گا ۔ لیکن یہ دلیل اس کے بعد کے جملے «وَإِنَّ الشَّیَاطِینَ» سے ہی ٹوٹ جاتی ہے اس لیے کہ وہ تو یقیناً عاطفہ جملہ ہے ۔ تو جس اگلے واؤ کو حالیہ کہا گیا ہے اگر اسے حالیہ مان لیا جائے تو پھر اس پر اس جملے کا عطف ناجائز ہوگا اور اگر اسے پہلے کے حالیہ جملے پر عطف ڈالا جائے تو جو اعتراض یہ دوسرے پر وارد کر رہے تھے وہی ان پر پڑے گا ہاں اگر اس واؤ کو حالیہ نہ مانا جائے تو یہ اعتراض ہٹ سکتا ہے لیکن جو بات اور دعویٰ تھا وہ سرے سے باطل ہو جائے گا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے ” مراد اس سے مردار جانور ہے جو اپنی موت آپ مر گیا ہو “ ۔ اس مذہب کی تائید ابوداؤد کی ایک مرسل حدیث سے بھی ہو سکتی ہے جس میں { حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے اس نے اللہ کا نام لیا ہو یا نہ لیا ہو کیونکہ اگر وہ لیتا تو اللہ کا نام ہی لیتا } } ۔ ۱؎ (ابوداود فی المراسیل:341،قال الشیخ الألبانی:مرسل و ضعیف) اس کی مضبوطی دارقطنی کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” جب مسلمان ذبح کرے اور اللہ کا نام نہ ذکر کرے تو کھا لیا کرو کیونکہ مسلمان اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے “ ۔ اسی مذہب کی دلیل میں وہ حدیث بھی پیش ہو سکتی ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے کہ نو مسلموں کے ذبیحہ کے کھانے کی جس میں دونوں اہتمال تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تو اگر «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کا کہنا شرط اور لازم ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تحقیق کرنے کا حکم دیتے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اگر «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کہنا بوقت ذبح بھول گیا ہے تو حلال ہے ، ذبیحہ پر عمداً «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» نہ کہی جائے وہ حرام ہے ۔ اسی لیے امام ابو یوسف اور مشائخ نے کہا ہے کہ اگر کوئی حاکم اسے بیچنے کا حکم بھی دے تو وہ حکم جاری نہیں ہو سکتا کیونکہ اجماع کے خلاف ہے ۔ لیکن صاحب ہدایہ کا یہ قول محض غلط ہے ، امام شافعی رحمہ اللہ سے پہلے بھی بہت سے ائمہ اس کے خلاف تھے ۔ چنانچہ اوپر جو دوسرا مذہب بیان ہوا ہے کہ بسم اللہ پڑھنا شرط نہیں بلکہ مستحب ہے یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا ان کے سب ساتھیوں کا اور ایک روایت میں امام احمد رحمہ اللہ کا اور امام مالک رحمہ اللہ کا اور اشہب بن عبدالعزیز کا مذہب ہے اور یہی بیان کیا گیا ہے ۔ ابن عباس ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہم ، عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کا اس سے اختلاف ہے ۔ پھر اجماع کا دعویٰ کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ امام ابو جعفر بن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ” جن لوگوں نے بوقت ذبح بسم اللہ بھول کر نہ کہے جانے پر بھی ذبیحہ حرام کہا ہے انہوں نے اور دلائل سے اس حدیث کی بھی مخالفت کی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مسلم کو اس کا نام ہی کافی ہے اگر وہ ذبح کے وقت اللہ کا نام ذکر کرنا بھول گیا تو اللہ کا نام لے اور کھالے } } -۱؎ (دارقطنی:296/4:ضعیف و موقوف) یہ حدیث بیہقی میں ہے لیکن اس کا مرفوع روایت کرنا خطا ہے اور یہ خطا معقل بن عبیداللہ خرزمی کی ہے ، ہیں تو یہ صحیح مسلم کے راویوں میں سے مگر سعید بن منصور اور عبداللہ بن زبیر حمیری اسے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے موقوف روایت کرتے ہیں -بقول امام بہیقی رحمہ اللہ یہ روایت سب سے زیادہ صحیح ہے ۔ شعبی اور محمد بن سیرین رحمہ اللہ علیہم اس جانور کا کھانا مکروہ جانتے تھے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو گو بھول سے ہی رہ گیا ہو ۔ ظاہر ہے کہ سلف کراہئیت کا اطلاق حرمت پر کرتے تھے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ہاں یہ یاد رہے کہ امام ابن جریر رحمہ اللہ کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ ان دو ایک قولوں کو کوئی چیز نہیں سمجھتے جو جمہور کے مخالف ہوں اور اسے اجماع شمار کرتے ہیں ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ الْمُوَفِّق» ۔ امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے ایک شخص نے مسئلہ پوچھا کہ میرے پاس بہت سے پرند ذبح شدہ آئے ہیں ان سے بعض کے ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھی گئی ہے اور بعض پر بھول سے رہ گئی ہے اور سب غلط ملط ہوگئے ہیں ۔ آپ رحمہ اللہ نے فتویٰ دیا کہ سب کھا لو ۔ پھر محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے یہی سوال ہوا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ” جن پر اللہ کا نام ذکر نہیں کیا گیا انہیں نہ کھاؤ “ ۔ اس تیسرے مذہب کی دلیل میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ { حضور علیہ السلام نے فرمایا : { اللہ تعالیٰ نے میری امت کی خطاء کو بھول کو اور جس کام پر زبردستی کی جائے اس کو معاف فرما دیا ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2043،قال الشیخ الألبانی:صحیح) لیکن اس میں ضعف ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بتائیے تو ہم میں سے کوئی شخص ذبح کرے اور بسم اللہ کہنا بھول جائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ کا نام ہر مسلمان کی زبان پر ہے } } ۔ ۱؎ (بیہقی فی السنن الکبری:240/9:ضعیف) [ یعنی وہ حلال ہے ] ۔ لیکن اس کی اسناد ضعیف ہے ۔ مردان بن سالم ابوعبداللہ شامی اس حدیث کا راوی ہے اور ان پر بہت سے ائمہ نے جرح کی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ میں نے اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے اس میں تمام مذاہب اور ان کے دلائل وغیرہ تفصیل سے لکھے ہیں اور پوری بحث کی ہے ، بظاہر دلیلوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کے وقت بسم اللہ کہنا ضروری ہے لیکن اگر کسی مسلمان کی زبان سے جلدی میں یا بھولے سے یا کسی اور وجہ سے نہ نکلے اور ذبح ہو گیا تو وہ حرما نہیں ہوتا [ «وَاللہُ اَعْلَمُ» مترجم ] عام اہل علم تو کہتے ہیں کہ اس آیت کا کوئی حصہ منسوخ نہیں لیکن بعض حضرات کہتے ہیں اس میں اہل کتاب کے ذبیحہ کا استثناء کر لیا گیا ہے اور ان کا ذبح کیا ہوا حلال جانور کھا لینا ہمارے ہاں حلال ہے تو گو وہ اپنی اصطلاح میں اسے نسخ سے تعبیر کریں لیکن دراصل یہ ایک مخصوص صورت ہے ۔ پھر فرمایا کہ ’ شیطان اپنے ولیوں کی طرف وحی کرتے ہیں ‘ -سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جب کہا گیا کہ مختار گمان کرتا ہے کہ اس کے پاس وحی آتی ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسی آیت کی تلاوت فرما کر فرمایا ” وہ ٹھیک کہتا ہے ۔ شیطان بھی اپنے دوستوں کی طرف وحی کرتے ہیں “ ۔ اور روایت میں ہے کہ اس وقت مختار حج کو آیا ہوا تھا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس جواب سے کہ وہ سچا ہے اس شخص کو سخت تعجب ہوا ۔ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ نے تفصیل بیان فرمائی کہ ” ایک تو اللہ کی وحی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئی اور ایک شیطانی وحی ہے جو شیطان کے دوستوں کی طرف آتی ہے ۔ شیطانی وساوس کو لے کر لشکر شیطان اللہ والوں سے جھگڑتے ہیں “ ۔ چنانچہ { یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ کیا اندھیر ہے ؟ کہ ہم اپنے ہاتھ سے مارا ہوا جانور تو کھا لیں اور جسے اللہ مار دے یعنی اپنی موت آپ مر جائے اسے نہ کھائیں ؟ اس پر یہ آیت اتری } ۱؎ (سنن ابوداود:2819،قال الشیخ الألبانی:صحیح لکن ذکر الیہود فیہ منکر والمحفوظ أنہم المشرکون) اور بیان فرمایا کہ وجہ حلت اللہ کے نام کا ذکر ہے لیکن ہے یہ قصہ غور طلب اولاً اس وجہ سے کہ یہودی از خود مرے ہوئے جانور کا کھانا حلال نہیں جانتے تھے دوسرے اس وجہ سے بھی کہ یہودی تو مدینے میں تھے اور یہ پوری سورت مکہ میں اتری ہے ۔ تیسرے یہ کہ یہ حدیث ترمذی میں مروی تو ہے لیکن مرسل طبرانی میں ہے کہ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد کہ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اسے کھا لو اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ تو اہل فارس نے قریشوں سے کہلوا بھیجا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ جھگڑیں اور کہیں کہ جسے تم اپنی چھری سے ذبح کرو وہ تو حلال اور جسے اللہ تعالیٰ سونے کی چھری سے خود ذبح کرے وہ حرام ؟ یعنی میتہ از خود مرا ہوا جانور ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ پس شیاطین سے مراد فارسی ہیں اور ان کے اولیاء قریش ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:13808:ضعیف) اور بھی اس طرح کی بہت سی روایتیں کئی ایک سندوں سے مروی ہیں لیکن کسی میں بھی یہود کا ذکر نہیں ۔ پس صحیح یہی ہے کیونکہ آیت مکی ہے اور یہود مدینے میں تھے اور اس لیے بھی کہ یہودی خود مردار خوار نہ تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” جسے تم نے ذبح کیا یہ تو وہ ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا اور جو از خود مر گیا وہ وہ ہے جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا “ ۔ (سنن ابوداود:2818،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مشرکین قریش فارسیوں سے خط و کتابت کر رہے تھے اور رومیوں کے خلاف انہیں مشورے اور امداد پہنچاتے تھے اور فارسی قریشیوں سے خط و کتابت رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف انہیں اکساتے اور ان کی امداد کرتے تھے ۔ اسی میں انہوں نے مشرکین کی طرف یہ اعتراض بھی بھیجا تھا اور مشرکین نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہی اعتراض کیا اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کے دل میں بھی یہ بات کھٹکی اس پر یہ آیت اتری ۔ پھر فرمایا ’ اگر تم نے ان کی تابعداری کی تو تم مشرک ہو جاؤ گے کہ تم نے اللہ کی شریعت اور فرمان قرآن کے خلاف دوسرے کی مان لی ‘ اور یہی شرک ہے کہ اللہ کے قول کے مقابل دوسرے کا قول مان لیا چنانچہ قرآن کریم میں ہے آیت «اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰــہًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ» ۱؎ (9-التوبۃ:31) یعنی ’ انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الہ بنا لیا ہے ‘ ۔ ترمذی میں ہے کہ { جب عدی بن حاتم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { انہوں نے حرام کو حلال کہا اور حلال کو حرام کہا اور انہوں نے ان کا کہنا مانا یہی عبادت ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3095،قال الشیخ الألبانی:حسن)