سورة البقرة - آیت 1

لم

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

الم ۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

حروف مقطعات اور ان کے معنی «الم» جیسے حروف مقطعات ہیں جو سورتوں کے اول میں آئے ہیں ۔ ان کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض تو کہتے ہیں ان کے معنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں اور کسی کو معلوم نہیں ۔ اس لیے وہ ان حروف کی کوئی تفسیر نہیں کرتے ۔ قرطبی رحمہ اللہ نے سیدنا ابوبکر ، سیدنا عمر ، سیدنا عثمان ، سیدنا علی ، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین سے یہی نقل کیا ہے ۔ عامر ، شعبی ، سفیان ثوری ، ربیع بن خیثم رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ابوحاتم بن حبان رحمہ اللہ کو بھی اسی سے اتفاق ہے ۔ بعض لوگ ان حروف کی تفسیر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی تفسیر میں بہت کچھ اختلاف ہے ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں ۔ علامہ ابوالقاسم محمود بن عمر زمحشری رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اکثر لوگوں کا اسی پر اتفاق ہے ۔ سیبویہ نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں «الم السجدۃ» اور «ہَلْ أَتَیٰ عَلَی الْإِنْسَان» پڑھتے تھے } ۔ (صحیح بخاری:891) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «الم» اور «حم» اور «المص» اور «ص» یہ سب سورتوں کی ابتداء ہے جن سے یہ سورتیں شروع ہوتی ہیں ۔ انہی سے یہ بھی منقول ہے کہ «الم» قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے ۔ قتادہ اور زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہم کا قول بھی یہی ہے اور شاید اس قول کا مطلب بھی وہی ہے جو عبدالرحمٰن بن زید اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سورتوں کے نام ہیں اس لیے کہ ہر سورت کو قرآن کہہ سکتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے قرآن کا نام «المص» ہو کیونکہ جب کوئی شخص کہے کہ میں نے سورۃ «المص» پڑھی تو ظاہر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سورۃ الاعراف پڑھی نہ کہ پورا قرآن ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نام ہیں ۔ شعبی ، سالم بن عبداللہ ، اسماعیل بن عبدالرحمٰن ، سدی کبیر رحمہ اللہ علیہم یہی کہتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ «الم» اللہ تعالیٰ کا بڑا نام ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ «حم» ، «طس» اور «الم» یہ سب اللہ تعالیٰ کے بڑے نام ہیں ۔ سیدنا علی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما دونوں سے یہ مروی ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے اور اس کا نام بھی ہے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قسم ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کے معنی «أَنَا اللہُ أَعْلَمُ» ہیں یعنی ’میں ہی ہوں اللہ زیادہ جاننے والا‘ ۔ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی یہ مروی ہے ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے الگ الگ حروف ہیں ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ تین حرف «الف» اور «لام» اور «میم» انتیس حرفوں میں سے ہیں جو تمام زبانوں میں آتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ہر حرف اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی بلا کا ہے اور اس میں قوموں کی مدت اور ان کے وقت کا بیان ہے ۔ عیسیٰ علیہ السلام کے تعجب کرنے پر کہا گیا تھا کہ وہ لوگ کیسے کفر کریں گے ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کے نام ہیں ۔ اس کی روزیوں پر وہ پلتے ہیں ۔ «الف» سے اللہ کا نام ، «اللہ» شروع ہوتا ہے اور «لام» سے اس کا نام «لطیف» شروع ہوتا ہے اور «میم» سے اس کا نام «مجید» شروع ہوتا ہے اور «الف» سے مراد «آلَاء» یعنی نعمتیں ہیں اور «لام» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «لُطْف» ہے اور «میم» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «مَجْد» یعنی بزرگی ہے ۔ «الف» سے مراد ایک سال ہے «لام» سے تیس سال اور «میم» سے چالیس سال ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:28/1) امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ان سب مختلف اقوال میں تطبیق دی ہے یعنی ثابت کیا ہے کہ ان میں ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو ۔ ہو سکتا ہے یہ سورتوں کے نام بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نام بھی ، سورتوں کے شروع کے الفاظ بھی ہوں اور ان میں سے ہر ہر حرف سے اللہ تعالیٰ کے ایک ایک نام کی طرف اشارہ بھی ، اور اس کی صفتوں کی طرف اور مدت وغیرہ کی طرف بھی ہو ۔ ایک ایک لفظ کئی کئی معنی میں آتا ہے ۔ جیسے لفظ «أُمَّۃٍ» کہ اس کے ایک معنی ہیں «دِّینُ» جیسے قرآن میں ہے : «إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَیٰ أُمَّۃٍ» (43-الزخرف:22) الخ یعنی ’ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی دین پر پایا‘ ۔ دوسرے معنی ہیں ، اللہ کا اطاعت گزار بندہ ، جیسے فرمایا : «إِنَّ إِبْرَاہِیمَ کَانَ أُمَّۃً قَانِتًا لِلہِ حَنِیفًا وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِینَ» (16-النحل:120) یعنی ’ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے مطیع اور فرمانبردار اور مخلص بندے تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے‘ ۔ تیسرے معنی ہیں «الْجَمَاعَۃُ» ، جیسے فرمایا : «وَجَدَ عَلَیْہِ أُمَّۃً مِنَ النَّاسِ یَسْقُونَ» (28-القصص:23) الخ یعنی ’ایک جماعت کو اس کنویں پر پانی پلاتے ہوئے پایا‘ ۔ اور جگہ ہے : «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ أُمَّۃٍ رَسُولًا» (16-النحل:36) الخ یعنی ’ہم نے ہر جماعت میں کوئی رسول یقیناً بھیجا‘ ۔ چوتھے معنی ہیں مدت اور زمانہ ۔ فرمان ہے : «وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ» (12-یوسف:45) یعنی ’ایک مدت کے بعد اسے یاد آیا‘ ۔ پس جس طرح یہاں ایک لفظ کے کئی معنی ہوئے اسی طرح ممکن ہے کہ ان حروف مقطعہ کے بھی کئی معنی ہوں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کے اس فرمان پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے جو تفسیر کی ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک لفظ ، ایک ساتھ ، ایک ہی جگہ ان سب معنی میں ہے اور لفظ امت وغیرہ جو کئی کئی معنی میں آتے ہیں جنہیں اصطلاح میں الفاظ مشترکہ کہتے ہیں ۔ ان کے معنی ہر جگہ جدا جدا تو ضرور ہوتے ہیں ، لیکن ہر جگہ ایک ہی معنی ہوتے ہیں جو عبارت کے قرینے سے معلوم ہو جاتے ہیں ایک ہی جگہ سب کے سب معنی مراد نہیں ہوتے اور سب کو ایک ہی جگہ محمول کرنے کے مسئلہ میں علماء اصول کا بڑا اختلاف ہے اور ہمارے تفسیری موضوع سے اس کا بیان خارج ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» دوسرے یہ کہ امت وغیرہ الفاظ کے معنی بہت سارے ہیں اور یہ الفاظ اسی لیے بنائے گئے ہیں کہ بندش کلام اور نشست الفاظ سے ایک معنی ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں لیکن ایک حرف کی دلالت ایک ایسے نام پر ممکن ہے جو دوسرے ایسے نام پر بھی دلالت کرتا ہو اور ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہ ہو نہ تو مقدر ماننے سے ، نہ ضمیر دینے سے ، نہ وضع کے اعتبار سے اور نہ کسی اور اعتبار سے ایسی بات علمی طور پر تو نہیں سمجھی جا سکتی البتہ اگر منقول ہو تو اور بات ہے لیکن یہاں اختلاف ہے اجماع نہیں ہے اس لیے یہ فیصلہ قابل غور ہے ۔ اب بعض اشعار عرب کے جو اس بات کی دلیل میں پیش کئے جاتے ہیں ایک کلمہ کو بیان کرنے کے لیے صرف اس کا پہلا حرف بول دیتے ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے لیکن ان شعروں میں خود عبارت ایسی ہوتی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے ۔ ایک حرف کے بولتے ہی پورا کلمہ سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن یہاں ایسا بھی نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک حدیث میں ہے کہ {جو مسلمان کے قتل پر آدھے کلمہ سے بھی مدد کرے}(سنن ابن ماجہ:2620 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف جدا) مطلب یہ ہے کہ «اقْتُلْ» پورا نہ کہے بلکہ صرف «إِقْ» کہے مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں : سورتوں کے شروع میں جو حروف ہیں مثلاً «ق» ، «ص» ، «حم» ، «طسم الر» وغیرہ یہ سب حروف «ہِجَا» ہیں ۔ بعض عربی دان کہتے ہیں کہ یہ حروف الگ الگ جو اٹھائیس ہیں ان میں سے چند ذکر کر کے باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے جیسے کوئی کہے کہ میرا بیٹا «ا ب ت ث» لکھتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام اٹھائیس حروف لکھتا ہے لیکن ابتداء کے چند حروف ذکر کر دئیے اور باقی کو چھوڑ دیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:208/1) سورتوں کے شروع میں اس طرح کے کل چودہ حروف آئے ہیں «ا ل م ص ر ک ہ ی ع ط س ح ق ن» ان سب کو اگر ملا لیا جائے تو یہ عبارت بنتی ہے ۔ «نَصٌّ حَکِیمٌ قَاطِعٌ لَہُ سِرٌّ» تعداد کے لحاظ سے یہ حروف چودہ ہیں اور جملہ حروف اٹھائیس ہیں اس لیے یہ پورے آدھے ہوئے بقیہ جن حروف کا ذکر نہیں کیا گیا ان کے مقابلہ میں یہ حروف ان سے زیادہ فضیلت والے ہیں اور یہ صناعت تصریف ہے ایک حکمت اس میں یہ بھی ہے کہ جتنی قسم کے حروف تھے اتنی قسمیں باعتبار اکثریت کے ان میں آ گئیں یعنی مہموسہ مجہورہ وغیرہ ۔ سبحان اللہ ہر چیز میں اس مالک کی حکمت نظر آتی ہے ۔ یہ یقینی بات ہے کہ اللہ کا کلام لغو ، بے ہودہ ، بےکار ، بےمعنی الفاظ سے پاک ہے جو جاہل لوگ کہتے ہیں کہ سرے سے ان حروف کے کچھ معنی ہی نہیں وہ بالکل خطا پر ہیں ۔ اس کے کچھ نہ کچھ معنی یقیناً ہیں ۔ اگر نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے معنی کچھ ثابت ہوں ، تو ہم وہ معنی کریں گے اور سمجھیں گے ورنہ جہاں کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ معنی بیان نہیں کئے ہم بھی نہ کریں گے اور ایمان لائیں گے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اس بارہ میں ہمیں کچھ نہیں ملا ۔ اور علماء کا بھی اس میں بےحد اختلاف ہے ۔ اگر کسی پر کسی قول کی دلیل کھل جائے تو خیر وہ اسے مان لے ورنہ بہتر یہ ہے کہ ان حروف کے کلام اللہ ہونے پر ایمان لائے اور یہ جانے کہ اس کے معنی ضرور ہیں جو اللہ ہی کو معلوم ہیں اور ہمیں معلوم نہیں ہوئے ۔ دوسری حکمت ان حروف کے لانے میں یہ بھی ہے کہ ان سے سورتوں کی ابتداء معلوم ہو جائے لیکن یہ وجہ ضعیف ہے اس لیے کہ اس کے بغیر ہی سورتوں کی جدائی معلوم ہو جاتی ہے جن سورتوں میں ایسے حروف ہی نہیں کیا ان کی ابتداء انتہا معلوم نہیں ؟ پھر سورتوں سے پہلے «بِسْمِ اللہِ » الخ کا پڑھنے اور لکھنے کے اعتبار سے موجود ہونا کیا ایک سورت کو دوسری سے جدا نہیں کرتا ؟ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کی حکمت یہ بھی بیان کی ہے کہ چونکہ مشرکین کتاب اللہ کو سنتے ہی نہ تھے اس لیے انہیں سنانے کے لیے ایسے حروف لائے گئے تاکہ جب ان کا دھیان کان لگ جائے تو باقاعدہ تلاوت شروع ہو لیکن یہ وجہ بھی بودی ہے اس لیے اگر ایسا ہوتا تو تمام سورتوں کی ابتداء انہی حروف سے کی جاتی حالانکہ ایسا نہیں ہوا ۔ بلکہ اکثر سورتیں اس سے خالی ہیں پھر جب کبھی مشرکین سے کلام شروع ہو یہی حروف چاہئیں ۔ نہ کہ صرف سورتوں کے شروع میں ہی یہ حروف ہوں ۔ پھر اس پر بھی غور کر لیجئے کہ یہ سورت یعنی سورۃ البقرہ اور اس کے بعد کی سورت یعنی سورۃ آل عمران یہ تو مدینہ شریف میں نازل ہوتی ہیں اور مشرکین مکہ ان کے اترنے کے وقت وہاں تھے ہی نہیں پھر ان میں یہ حروف کیوں آئے ؟ ہاں یہاں پر ایک اور حکمت بھی بیان کی گئی ہے کہ ان حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے ۔ باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف سے ترکیب دئیے گئے ہیں لیکن مخلوق کے کلام سے بالکل نرالے ہیں ۔ مبرد رحمہ اللہ اور محققین کی ایک جماعت اور فراء رحمہ اللہ اور قطرب رحمہ اللہ سے بھی یہی منقول ہے ، زمخشری رحمہ اللہ نے تفسیر کشاف میں اس قول کو نقل کر کے اس کی بہت کچھ تائید کی ہے ۔ شیخ امام علامہ ابوالعباس ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور حافظ مجتہد ابوالحاج مزی رحمہ اللہ نے بھی یہی حکمت بیان کی ہے ۔ زمحشری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام حروف اکٹھے نہیں آئے ۔ ہاں ان حروف کو مکرر لانے کی یہ وجہ ہے کہ باربار مشرکین کو عاجز اور لاجواب کیا جائے اور انہیں ڈانٹا اور دھمکایا جائے جس طرح قرآن کریم میں اکثر قصے کئی کئی مرتبہ لائے گئے ہیں اور باربار کھلے الفاظ میں بھی قرآن کے مثل لانے میں ان کی عاجزی کا بیان کیا گیا ہے ۔ بعض جگہ تو صرف ایک حرف آیا ہے جیسے «ص» «ن» «ق» کہیں دو حروف آئے ہیں جیسے «حم» کہیں تین حروف آئے ہیں جیسے «الم» کہیں چار آئے ہیں جیسے «المر» اور «المص» اور کہیں پانچ آئے ہیں جیسے «کھیعص» اور «حم عسق» اس لیے کہ کلمات عرب کے کل کے کل اسی طرح پر ہیں یا تو ان میں ایک حرفی لفظ ہیں یا دو حرفی یا سہ حرفی یا چار حرفی یا پانچ حرفی کے پانچ حرف سے زیادہ کے کلمات نہیں ۔ جب یہ بات ہے کہ یہ حروف قرآن شریف میں بطور معجزے کے آئے ہیں تو ضروری تھا کہ جن سورتوں کے شروع میں یہ حروف آئے ہیں وہاں ذکر بھی قرآن کریم کا ہو اور قرآن کی بزرگی اور بڑائی بیان ہو چنانچہ ایسا ہی انتیس سورتوں میں یہ واقع ہوا ہے ۔ سنیے فرمان ہے : «الم» * «ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیہِ ہُدًی لِلْمُتَّقِینَ» (2-البقرۃ:1-2) یہاں بھی ان حروف کے بعد ذکر ہے کہ اس قرآن کے اللہ جل شانہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اور جگہ فرمایا : «الم» « اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیٰ الْقَیٰومُ» * «نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَأَنْزَلَ التَّوْرَاۃَ وَالْإِنْجِیلَ» (3-آل عمران:1-2-3) یعنی ’وہ اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور دائم و قائم ہے جس نے تم پر حق کے ساتھ یہ کتاب تھوڑی تھوڑی نازل فرمائی ہے جو پہلے کی کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہے‘ یہاں بھی ان حروف کے بعد قرآن کریم کی عظمت کا اظہار کیا گیا ۔ اور جگہ فرمایا : «المص» * «کِتَابٌ أُنْزِلَ إِلَیْکَ فَلَا یَکُنْ فِی صَدْرِکَ حَرَجٌ مِنْہُ لِتُنْذِرَ بِہِ وَذِکْرَیٰ لِلْمُؤْمِنِینَ» (7-الأعراف:1-2) یعنی ’یہ کتاب تیری طرف اتاری گئی ہے تو اپنا دل تنگ نہ رکھ ‘ ۔ اور جگہ فرمایا: «الر کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظٰلُمَاتِ إِلَی النٰورِ بِإِذْنِ رَبِّہِمْ إِلَیٰ صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ» (14-إبراہیم:1) یعنی ’ یہ کتاب ہم نے تیری طرف نازل کی تاکہ تو لوگوں کو اپنے رب کے حکم سے اندھیروں سے نکال کر اجالے میں لائے ، زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف ‘ ۔ ارشاد ہوتا ہے : «الم» * «تَنْزِیلُ الْکِتَابِ لَا رَیْبَ فِیہِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ» (32-السجدۃ:1-2) یعنی ’اس کتاب کے رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں‘ ۔ فرماتا ہے : «حم» * «تَنْزِیلٌ مِنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» (41-فصلت:1-2) ’بخششوں اور مہربانیوں والے اللہ نے اسے نازل فرمایا ہے‘ ۔ فرمایا : «حم» * «عسق» * «کَذٰلِکَ یُوحِی إِلَیْکَ وَإِلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکَ اللہُ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ» (42-الشوری:1-2-3) یعنی ’اسی طرح وحی کرتا ہے اللہ تعالیٰ غالب حکمتوں والا تیری طرف اور ان نبیوں کی طرف جو تجھ سے پہلے تھے‘ ۔ اسی طرح اور ایسی سورتوں کے شروع کو بغور دیکھئیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان حروف کے بعد کلام پاک کی عظمت و عزت کا ذکر ہے جس سے یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حروف اس لیے لائے گئے ہیں کہ لوگ اس کے لیے معارضے اور مقابلے میں عاجز ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان حروف سے مدت معلوم کرائی گئی ہے اور فتنوں لڑائیوں اور دوسرے ایسے ہی کاموں کے اوقات بتائے گئے ہیں ۔ لیکن یہ قول بھی بالکل ضعیف معلوم ہوتا ہے اس کی دلیل میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے ۔ لیکن اول تو وہ ضعیف ہے دوسرے اس حدیث سے اس قول کی پختگی کا ایک طرف اس کا باطل ہونا زیادہ ثابت ہوتا ہے ۔ وہ حدیث محمد بن اسحاق بن یسار نے نقل کی ہے جو تاریخ کے مصنف ہیں ۔ اس حدیث میں ہے کہ ابویاسر بن اخطب یہودی اپنے چند ساتھیوں کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سورۃ البقرہ کی شروع آیت «الم» * «ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیہِ» (2-البقرۃ:1-2) الخ تلاوت فرما رہے تھے وہ اسے سن کر اپنے بھائی حیی بن اخطب کے پاس آیا اور کہا میں نے آج آپ [صلی اللہ علیہ وسلم] کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے ۔ وہ پوچھتا ہے تو نے خود سنا ؟ اس نے کہا : ہاں میں نے خود سنا ہے ۔ حیی ان سب یہودیوں کو لے کر پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے حضور کیا یہ سچ ہے کہ آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سچ ہے ۔ اس نے کہا سنیے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے نبی آئے کسی کو بھی نہیں بتایا گیا تھا ۔ کہ اس کا ملک اور مذہب کب تک رہے گا لیکن آپ کو بتا دیا گیا پھر کھڑا ہو کر لوگوں سے کہنے لگا سنو ! «الف» کا عدد ہوا ایک ، «لام» کے تیس ، «میم» کے چالیس ۔ کل اکہتر ہوئے ۔ کیا تم اس نبی کی تابعداری کرنا چاہتے ہو جس کے ملک اور امت کی مدت کل اکہتر سال ہو ؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر دریافت کیا کہ کیا کوئی اور آیت بھی ایسی ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں «المص» ، کہنے لگا یہ بڑی بھاری اور بہت لمبی ہے ۔ «الف» کا ایک ، «لام» کے تیس ، «میم» کے چالیس ، «صواد» کے نوے یہ سب ایک سو اکسٹھ سال ہوئے ۔ کہا اور کوئی بھی ایسی آیت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ۔ «الر» کہنے لگا یہ بھی بہت بھاری اور لمبی ہے ۔ «الف» کا ایک ، «لام» کے تیس اور «رے» کے دو سو ۔ جملہ دو سو اکتیس برس ہوئے ۔ کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی ایسی ہے ۔ آپ نے فرمایا «المر» ہے کہا یہ تو بہت ہی بھاری ہے «الف» کا ایک ، «لام» کے تیس ، «میم» کے چالیس ، «رے» کے دو سو ، سب مل کر دو سو اکہتر ہو گئے ۔ اب تو کام مشکل ہو گیا اور بات خلط ملط ہو گئی ۔ ” لوگو ! اٹھو ، ابویاسر نے اپنے بھائی سے اور دوسرے علماء یہود سے کہا ۔ “ کیا عجب کہ ان سب حروف مجموعہ کی مدت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی ہو اکہتر ایک ، سو ایک ، ایک سو اکتیس ایک ، دو سو اکتیس ایک ، دو سو اکہتر ایک ، یہ سب مل کر سات سو چار برس ہوئے ۔ انہوں نے کہا اب کام خلط ملط ہو گیا ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیتیں انہی لوگوں کے حق میں نازل ہوئیں : «ہُوَ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ مِنْہُ آیَاتٌ مُحْکَمَاتٌ ہُنَّ أُمٰ الْکِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِہَاتٌ» (3-آل عمران:7) یعنی الخ ’وہی اللہ جس نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی جس میں محکم آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور دوسری آیتیں مشابہت والی بھی ہیں‘ ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:216/1:ضعیف جدا) اس حدیث کا دارومدار محمد بن سائب کلبی پر ہے اور جس حدیث کا یہ اکیلا راوی ہو محدثین اس سے حجت نہیں پکڑتے اور پھر اس طرح اگر مان لیا جائے اور ہر ایسے حرف کے عدد نکالے جائیں تو جن پر چودہ حروف کو ہم نے بیان کیا ان کے عدد بہت ہو جائیں گے اور جو حروف ان میں سے کئی کئی بار آئے ہیں اگر ان کے عدد کا شمار بھی کئی کئی بار لگایا جائے تو بہت ہی بڑی گنتی ہو جائے گی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»