مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
میں نے ان سے صرف وہی بات کہی ہے جس کا تونے مجھے حکم دیا تھا کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے اور جب تک میں ان میں رہا ان سے خبردار رہا پھر جب تونے مجھے قبض کرلیا ، تو تو ہی ان کا نگہبان تھا اور تو ہر شئے پر گواہ ہے (ف ١) ۔
1 ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک واعظ میں فرمایا : { اے لوگو ! تم سب اللہ عز و جل کے سامنے ننگے پیر ، ننگے بدن ، بے ختنہ جمع ہونے والے ہو ، جیسے کہ ہم نے شروع پیدائش کی تھی ویسے ہی دوبارہ لوٹائیں گے ، سب سے پہلے خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے سنو کچھ لوگ میری امت کے ایسے لائے جائیں گے جنہیں بائیں جانب گھسیٹ لیا جائے گا تو میں کہوں گا یہ تو میرے ہیں ، کہا جائے گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انہوں نے کیا کیا گل کھلائے تھے ، تو میں وہی کہوں گا جو اللہ کے صالح بندے کا قول ہے کہ { جب تک میں ان میں رہا ، ان کے اعمال پر شاہد تھا } ۔ پس فرمایا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ تو دین سے مرتد ہی ہوتے رہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4625) اس کے بعد کی آیت کا مضمون اللہ تعالیٰ کی چاہت اور اس کی مرضی کی طرف کاموں کو لوٹانا ہے ، وہ جو کچھ چاہے کرتا ہے اس سے کوئی کسی قسم کا سوال نہیں کرسکتا اور وہ ہر ایک سے بازپرس کرتا ہے ، ساتھ ہی اس مقولے میں جناب مسیح کی بیزاری ہے ، ان نصرانیوں سے جو اللہ پر اور اس کے رسول علیہ السلام پر بہتان باندھتے تھے اور اللہ کا شریک ٹھہراے تھے اور اس کی اولاد اور بیوی بتاتے تھے ، اللہ تعالیٰ ان کی ان تہمتوں سے پاک ہے اور وہ بلند و برتر ہے ۔ اس عظیم الشان آیت کی عظمت کا اظہار اس حدیث سے ہوتا ہے ، جس میں ہے کہ { پوری ایک رات اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی ایک آیت کی تلاوت فرماتے رہے } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1350،قال الشیخ الألبانی:حسن) چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نماز پڑھی اور صبح تک ایک ہی آیت کی تلاوت فرماتے رہے ، اسی کو رکوع میں اور اسی کو سجدے میں پڑھتے رہے ، وہ آیت یہی ہے ۔ صبح کو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ آج کی رات تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ایک آیت میں گزاری رکوع میں بھی اس کی تلاوت رہی اور سجدے میں بھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کی شفاعت کیلئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرما لیا ، پس میری یہ شفاعت ہر موحد شخص کیلئے ہو گی } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:149/5:حسن) ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ مسند احمد کی اور حدیث میں ہے { سیدہ جرہ بنت دجاجہ رضی اللہ عنہا عمرے کے ارادے سے جاتی ہیں جب ربذہ میں پہنچتی ہیں تو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے حدیث سنتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھائی ، فرضوں کے بعد دیکھا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نماز میں مشغول ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے کی طرف تشریف لے گئے ، جب جگہ خالی ہوگئی اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے اور نماز میں کھڑے ہو گئے میں بھی آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دائیں طرف کھڑا ہونے کا مجھے اشارہ کیا ، میں دائیں جانب آ گیا ، پھر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ آئے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بائیں طرف کھڑے ہونے کا اشارہ کیا چنانچہ وہ آکر بائیں جانب کھڑے ہوگئے ۔ اب ہم تینوں نے اپنی اپنی نماز شروع کی الگ الگ تلاوت قرآن اپنی نماز میں کررہے تھے اور حضور علیہ السلام کی زبان مبارک پر ایک ہی آیت تھی ، باربار اسی کو پڑھ رہے تھے ، جب صبح ہوئی تو میں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ذرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت تو کرو کہ رات کو ایک ہی آیت کے پڑھنے کی کیا وجہ تھی ؟ انہوں نے کہا اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود کچھ فرمائیں تو اور بات ہے ورنہ میں تو کچھ بھی نہ پوچھوں گا ۔ اب میں نے خود ہی جرأت کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں ، سارا قرآن تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے میں ہے } ۔ { پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی آیت میں ساری رات کیسے گزار دی ؟ اگر کوئی اور ایسا کرتا تو ہمیں تو بہت برا معلوم ہوتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اپنی امت کے لیے دعا کر رہا تھا } ۔ میں نے پوچھا پھر کیا جواب ملا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اتنا اچھا ، ایسا پیارا ، اس قدر آسانی والا کہ اگر عام لوگ سن لیں تو ڈر ہے کہ کہیں نماز بھی نہ چھوڑ بیٹھیں } ، میں نے کہا مجھے اجازت ہے کہ میں لوگوں میں یہ خوشخبری پہنچا دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ، میں ابھی کچھ ہی دور گیا ہوں گا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر یہ خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام طور پر کرا دی تو ڈر ہے کہ کہیں لوگ عبادت سے بے پرواہ نہ ہو جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی کہ لوٹ آئے اور وہ آیت «إِن تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِن تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ» (5-المائدہ:118) تھی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:170/5:حسن) ابن ابی حاتم میں ہے { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسیٰ علیہ السلام کے اس قول کی تلاوت کی پھر ہاتھ اٹھا کر فرمایا: { اے میرے رب میری امت! اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے } ۔ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ جا کر پوچھو کہ کیوں رو رہے ہیں ؟ حالانکہ اللہ کو سب کچھ معلوم ہے ، جبرائیل علیہ السلام آئے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اپنی امت کے لیے! } اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’ جاؤ کہہ دو کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے بارے میں خوش کردیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالکل رنجیدہ نہ ہوں گے ‘ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:202) مسند احمد میں ہے { حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک روز رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ہی نہیں یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئیں گے ہی نہیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آتے ہی سجدے میں گر پڑے اتنی دیر لگ گئی کہ ہمیں خوف ہوا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پرواز نہ کر گئی ہو ؟ تھوڑی دیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمانے لگے { مجھ سے میرے رب عزوجل نے میری امت کے بارے میں دریافت فرمایا کہ میں ان کے ساتھ کیا کروں ؟ میں نے عرض کیا کہ باری تعالیٰ وہ تیری مخلوق ہے وہ سب تیرے بندے اور تیرے غلام ہیں تجھے اختیار ہے ، پھر مجھ سے دوبارہ میرے اللہ نے دریافت فرمایا میں نے پھر بھی یہی جواب دیا تو مجھ سے اللہ عزوجل نے فرمایا ’ اے نبی [ صلی اللہ علیہ وسلم ] میں آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے بارے میں کبھی شرمندہ نہ کروں گا ‘ ۔ سنو مجھے میرے رب نے خوشخبری دی ہے کہ سب سے پہلے میری امت میں سے میرے ساتھ ستر ہزار شخص جنت میں جائیں گے ، ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے ، ان سب پر حساب کتاب مطلقاً نہیں ، پھر میری طرف پیغام بھیجا کہ ’ میرے حبیب مجھ سے دعا کرو میں قبول فرماؤں گا مجھ سے مانگو میں دوں گا ‘ ۔ میں نے اس قاصد سے کہا کہ جو میں مانگوں مجھے ملے گا ؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں اسی لیے تو مجھے اللہ نے بھیجا ہے ۔ { چنانچہ میرے رب نے بہت کچھ عطا فرمایا ، میں یہ سب کچھ فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا ، مجھے میرے رب نے بالکل بخش دیا ، اگلے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیئے حالانکہ زندہ سلامت چل پھر رہا ہوں ، مجھے میرے رب نے یہ بھی عطا فرمایا کہ میری تمام امت قحط سالی کی وجہ سے بھوک کے مارے ہلاک نہ ہو گی اور نہ سب کے سب مغلوب ہو جائیں گے ، مجھے میرے رب نے حوص کوثر دیا ہے ، وہ جنت کی ایک نہر ہے جو میرے حوض میں بہ رہی ہے ، مجھے اس نے عزت ، مدد اور رعب دیا ہے جو امتیوں کے آگے آگے مہینہ بھر کی راہ پر چلتا ہے ، تمام نبیوں میں سب سے پہلے میں جنت ہی میں جاؤں گا ، میرے اور میری امت کے لیے غنیمت کا مال حلال طیب کر دیا گیا وہ سختیاں جو پہلوں پر تھیں ہم پر سے ہٹا دی گئیں اور ہمارے دین میں کسی طرح کی کوئی تنگی نہیں رکھی گئی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:393/5:ضعیف)