وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ ۖ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ
اور جب وہ کلام سنتے ہیں جو رسول پر نازل ہوا ہے تو تو دیکھتا ہے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے ہیں اس لئے کہ انہوں نے حق پہچان لیا ہے کہتے ہیں کہ اے رب ہم ایمان لائے سو ہمیں گواہوں میں لکھ لے۔ (ف ١)
ایمان والو کی پہچان اوپر بیان گزر چکا ہے کہ عیسائیوں میں سے جو نیک دل لوگ اس پاک مذہب اسلام کو قبول کئے ہوئے ہیں ان میں جو اچھے اوصاف ہیں مثلاً عبادت ، علم ، تواضع ، انکساری وغیرہ ، ساتھ ہی ان میں رحمدلی وغیرہ بھی ہے حق کی قبولیت بھی ہے اللہ کے احکامات کی اطلاعت بھی ہے ادب اور لحاظ سے کلام اللہ سنتے ہیں ، اس سے اثر لیتے ہیں اور نرم دلی سے رو دیتے ہیں کیونکہ وہ حق کے جاننے والے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بشارت سے پہلے ہی آگاہ ہوچکے ہیں ۔ اس لیے قرآن سنتے ہی دل موم ہو جاتے ہیں ۔ ایک طرف آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں دوری جانب زبان سے حق کو تسلیم کرتے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” یہ آیتیں نجاشی رحمۃ اللہ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12330:مرسل) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ” کچھ لوگ جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ جشہ سے آئے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے قرآن کریم سن کر ایمان لائے اور بے تحاشا رونے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریاف فرمایا کہ { کہیں اپنے وطن پہنچ کر اس سے پھر تو نہیں جاؤ گے ؟ } انہوں نے کہا ناممکن ہے اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے “ ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:12455:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” شاہدوں سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی تبلیغ کی شہادت ہے “ ۔ پھر اس قسم کے نصرانیوں کا ایک اور وصف بیان ہو رہا ہے ان ہی کا دوسرا وصف اس آیت میں ہے «وَإِنَّ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ لَمَن یُؤْمِنُ بِ اللہِ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْکُمْ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْہِمْ خَاشِعِینَ لِلہِ» (3-آل عمران:199) یعنی ’ اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور اس قرآن پر اور جو ان پر نازل کیا گیا ہے سب پر ایمان رکھتے ہیں اور پھر اللہ سے ڈرنے والے بھی ہیں ‘ ۔ ان ہی کے بارے میں فرمان ربانی ہے «اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِہٖ ہُمْ بِہٖ یُؤْمِنُوْنَ وَاِذَا یُتْلٰی عَلَیْہِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖٓ اِنَّہُ الْحَقٰ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَ اُولٰیِٕکَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَہُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَیَدْرَءُوْنَ بالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ۡ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ۡ لَا نَبْتَغِی الْجٰہِلِیْنَ» (28 ۔ القصص:52 - 55) ۔ کہ ’ یہ لوگ اس کتاب کو اور اس کتاب کو سچ جانتے ہیں اور دونوں پر ایمان رکھتے ہیں ‘ ۔ پس یہاں بھی فرمایا کہ ’ وہ کہتے ہیں کہ جب ہمیں صالحین میں ملنا ہے تو اللہ پر اور اس کی اس آخری کتاب پر ہم ایمان کیوں نہ لائیں ؟ ان کے اس ایمان و تصدیق اور قبولیت حق کا بدلہ اللہ نے انہیں یہ دیا کہ وہ ہمیشہ رہنے والے تروتازہ باغات و چشموں والی جنتوں میں جائیں گے ۔ محسن ، نیکوکار ، مطیع حق ، تابع فرمان الٰہی لوگوں کی جزا یہی ہے ، وہ کہیں کے بھی ہوں کوئی بھی ہوں ۔ جو ان کے خلاف ہیں انجام کے لحاظ سے بھی ان کے برعکس ہیں ، کفرو تکذب اور مخالفت یہاں ان کا شیوہ ہے اور وہاں جہنم ان کا ٹھکانا ہے ‘ ۔