سورة المآئدہ - آیت 59

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ اے اہل کتاب (یعنی یہود) کیا تم کو ہم سے بیر ہے (ف ٣) کہ ہم خدا پر ایمان لائے ہیں ؟ اور (حالانکہ) جو کچھ ہم پر اور ہم سے پہلے نازل ہوا ہے اس کو مانتے ہیں اور یہ کہ تم میں اکثر فاسق ہیں ۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

بدترین گروہ اور اس کا انجام حکم ہوتا ہے کہ ’ جو اہل کتاب تمہارے دین پر مذاق اڑاتے ہیں ، ان سے کہو کہ تم نے جو دشمنی ہم سے کر رکھی ہے ، اس کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں کہ ہم اللہ پر اور اس کی تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں ‘ ۔ پس دراصل نہ تو یہ کوئی وجہ بغض ہے ، نہ سبب مذمت بہ استثناء منقطع ہے ۔ اور آیت میں ہے «وَمَا نَقَمُوْا مِنْہُمْ اِلَّآ اَنْ یٰؤْمِنُوْا باللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ» (85-البروج:8) ، یعنی ’ فقط اس وجہ سے انہوں نے ان سے دشمنی کی تھی کہ وہ اللہ عزیز و حمید کو مانتے تھے ‘ ۔ اور جیسے اور آیت میں «وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاہُمُ اللہُ وَرَسُولُہُ مِن فَضْلِہِ» ۱؎ (9-التوبۃ:74) ۔ یعنی ’ انہوں نے صرف اس کا انتقام لیا ہے کہ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مال دے کر غنی کر دیا ہے ‘ ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے { ابن جمیل اسی کا بدلہ لیتا ہے کہ وہ فقیر تھا تو اللہ نے اسے غنی کر دیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1468) اور یہ کہ تم میں سے اکثر صراط مستقیم سے الگ اور خارج ہو چکے ہیں ، تم جو ہماری نسبت گمان رکھتے ہو آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ کے ہاں سے بدلہ پانے میں کون بدتر ہے ؟ اور وہ تم ہو کہ کیونکہ یہ خصلتیں تم میں ہی پائی جاتی ہیں ۔ یعنی جسے اللہ نے لعنت کی ہو ، اپنی رحمت سے دور پھینک دیا ہو ، اس پر غصبناک ہوا ہو ، ایسا جس کے بعد رضامند نہیں ہوگا اور جن میں سے بعض کی صورتیں بگاڑ دی ہوں ، بندر اور سور بنا دیئے ہوں ۔ اس کا پورا بیان سورۃ البقرہ میں گزر چکا ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ یہ بندر و سور وہی ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جس قوم پر اللہ کا ایسا عذاب نازل ہوتا ہے ، ان کی نسل ہی نہیں ہوتی ، ان سے پہلے بھی سور اور بندر تھے } } ۔ روایت مختلف الفاظ میں صحیح مسلم اور نسائی میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2663) مسند میں ہے کہ { جنوں کی ایک قوم سانپ بنا دی گئی تھی ۔ جیسے کہ بندر اور سور بنا دیئے گئے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:348/1:صحیح) یہ حدیث بہت ہی غریب ہے ، { انہی میں سے بعض کو غیر اللہ کے پرستار بنا دیئے } ۔ ایک قرأت میں اضافت کے ساتھ طاغوت کی زیر سے بھی ہے ۔ یعنی ’ انہیں بتوں کا غلام بنا دیا ‘ ۔ برید اسلمی رحمہ اللہ اسے «عَابِدُ الطَّاغُوْتِ» پڑھتے تھے ۔ ابو جعفر قاری رحمہ اللہ سے «وَعْبِدَ الطَّاغُوْتُ» بھی منقول ہے جو بعید از معنی ہو جاتا ہے لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہوتا مطلب یہ ہے کہ ’ تم ہی وہ ہو ، جنہوں نے طاغوت کی عبادت کی ‘ ۔ الغرض اہل کتاب کو الزام دیا جاتا ہے کہ ہم پر تو عیب گیری کرتے ہو ، حالانکہ ہم موحد ہیں ، صرف ایک اللہ برحق کے ماننے والے ہیں اور تم تو وہ ہو کہ مذکورہ سب برائیاں تم میں پائی گئیں ۔ اسی لیے خاتمے پر فرمایا کہ یہی لوگ باعتبار قدر و منزلت کے بہت برے ہیں اور باعتبار گمراہی کے انتہائی غلط راہ پر پڑے ہوئے ہیں ۔ اس افعل التفصیل میں دوسری جانب کچھ مشارکت نہیں اور یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں ۔ جیسے اس آیت میں «اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ یَوْمَیِٕذٍ خَیْرٌ مٰسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِیْلًا» ۱؎ (25-الفرقان:24) پھر منافقوں کی ایک اور بدخصلت بیان کی جا رہی ہے کہ ’ ظاہر میں تو وہ مومنوں کے سامنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے باطن کفر سے بھرے پڑے ہیں ۔ یہ تیرے کفر کی حالت میں پاس آتے ہیں اور اسی حالت میں تیرے پاس سے جاتے ہیں تو تیری باتیں ، تیری نصیحتیں ان پر کچھ اثر نہیں کرتیں ۔ بھلا یہ پردہ داری انہیں کیا کام آئے گی ، جس سے ان کا معاملہ ہے ، وہ تو عالم الغیب ہے ، دلوں کے بھید اس پر روشن ہیں ۔ وہاں جا کر پورا پورا بدلہ بھگتنا پڑے گا ‘ ۔ ’ تو دیکھ رہا ہے کہ یہ لوگ گناہوں پر ، حرام پر اور باطل کے ساتھ لوگوں کے مال پر کس طرح چڑھ دوڑتے ہیں ؟ ان کے اعمال نہایت ہی خراب ہو چکے ہیں ۔ ان کے اولیاء اللہ یعنی عابد و عالم اور ان کے علماء انہیں ان باتوں سے کیوں نہیں روکتے ؟ دراصل ان کے علماء اور پیروں کے اعمال بدترین ہوگئے ہیں ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” علماء اور فقراء کی ڈانٹ کیلئے اس سے زیادہ سخت آیت کوئی نہیں “ ۔ ضحاک رحمۃ اللہ سے بھی اسی طرح منقول ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ” لوگو تم سے اگلے لوگ اسی بناء پر ہلاک کر دیئے گئے کہ وہ برائیاں کرتے تھے تو ان کے عالم اور اللہ والے خاموش رہتے تھے ، جب یہ عادت ان میں پختہ ہو گئی تو اللہ نے انہیں قسم قسم کی سزائیں دیں ۔ پس تمہیں چاہیئے کہ بھلائی کا حکم کرو ، برائی سے روکو ، اس سے پہلے کہ تم پر بھی وہی عذاب آ جائیں جو تم سے پہلے والوں پر آئے ، یقین رکھو کہ اچھائی کا حکم برائی سے ممانعت نہ تو تمہارے روزی گھٹائے گا ، نہ تمہارے موت قریب کر دے گا “ ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { جس قوم میں کوئی اللہ کی نافرمانی کرے اور وہ لوگ باوجود روکنے کی قدرت اور غلبے کے اسے نہ مٹائیں تو اللہ تعالیٰ سب پر اپنا عذاب نازل فرمائے گا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:363/3:حسن) ابوداؤد میں ہے کہ { یہ عذاب ان کی موت سے پہلے ہی آئے گا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4339،قال الشیخ الألبانی:حسن) ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4009،قال الشیخ الألبانی:صحیح)