مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ
اسی سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر کھ دیا کہ جو کوئی کسی کو بغیر معاوضہ یا بغیر ملکی فساد کے مارے گا تو ایسا ہے گویا اس نے سارے (ف ٢) آدمیوں کو مارا اور جس نے ایک کو جلایا ، اس نے گویا سب کو جلایا ، اور ان کے پاس ہمارے رسول صاف حکم لا چکے ہیں ، پھر بھی ان میں اکثر ہیں کہ اس کے بعد بھی زمین میں دست درازی کرتے ہیں (ف ٣)
ایک بےگناہ شخص کا قتل تمام انسانوں کا قتل فرمان ہے کہ ’ حضرت آدم علیہ السلام کے اس لڑکے کے قتل بے جا کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل سے صاف فرما دیا ان کی کتاب میں لکھ دیا اور ان کیلئے اس حکم کو حکم شرعی کر دیا کہ ’ جو شخص کسی ایک کو بلا وجہ مار ڈالے نہ اس نے کسی کو قتل کیا تھا نہ اس نے زمین میں فساد پھیلایا تھا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کیا ‘ ، اس لیے کہ اللہ کے نزدیک ساری مخلوق یکساں ہے اور جو کسی بے قصور شخص کے قتل سے باز رہے اسے حرام جانے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو زندگی دی ، اس لیے کہ یہ سب لوگ اس طرح سلامتی کے ساتھ رہیں گے “ ۔ امیرالمؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو جب باغی گھیر لیتے ہیں ، تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں میں ” آپ رضی اللہ عنہ کی طرف داری میں آپ رضی اللہ عنہ کے مخالفین سے لڑنے کیلئے آیا ہوں ، آپ رضی اللہ عنہ ملاحظہ فرمایئے کہ اب پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے “ ۔ یہ سن کر معصوم خلیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، ” کیا تم اس بات پر آمادہ ہو کہ سب لوگوں کو قتل کر دو ، جن میں ایک میں بھی ہوں “ ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” نہیں نہیں “ ۔ فرمایا ” سنو ایک کو قتل کرنا ایسا برا ہے جیسے سب کو قتل کرنا ۔ جاؤ واپس لوٹ جاؤ ، میری یہی خواہش ہے اللہ تمہیں اجر دے اور گناہ نہ دے “ ، یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ واپس چلے گئے اور نہ لڑے ۔ مطلب یہ ہے کہ قتل کا اجر دنیا کی بربادی کا باعث ہے اور اس کی روک لوگوں کی زندگی کا سبب ہے ۔ سعید بن جبیر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” ایک مسلمان کا خون حلال کرنے والا تمام لوگوں کا قاتل ہے اور ایک مسلم کے خون کو بچانے والا تمام لوگوں کے خون کو گویا بچا رہا ہے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور عادل مسلم بادشاہ کو قتل کرنے والے پر ساری دنیا کے انسانوں کے قتل کا گناہ ہے اور نبی اور امام عادل کے بازو کو مضبوط کرنا دنیا کو زندگی دینے کے مترادف ہے “ ۔ (ابن جریر) ایک اور روایت میں ہے کہ ” ایک کو بے وجہ مار ڈالتے ہی جہنمی ہو جاتا ہے گویا سب کو مار ڈالا “ ۔ مجاہد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” مومن کو بے وجہ شرعی مار ڈالنے والا جہنمی دشمن رب ، ملعون اور مستحق سزا ہو جاتا ہے ، پھر اگر وہ سب لوگوں کو بھی مار ڈالتا تو اس سے زیادہ عذاب اسے اور کیا ہوتا ؟ جو قتل سے رک جائے گویا کہ اس کی طرف سے سب کی زندگی محفوظ ہے “ ۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ایک قتل کے بدلے ہی اس کا خون حلال ہو گیا ، یہ نہیں کہ کئی ایک کو قتل کرے ، جب ہی وہ قصاص کے قابل ہو ، اور جو اسے زندگی دے یعنی قاتل کے ولی سے درگزر کرے اور اس نے گویا لوگوں کو زندگی دی “ ۔ اور یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ جس نے انسان کی جان بچا لی مثلاً ڈوبتے کو نکال لیا ، جلتے کو بچا لیا ، کسی کو ہلاکت سے ہٹا لیا ۔ مقصد لوگوں کو خون ناحق سے روکنا اور لوگوں کی خیر خواہی اور امن و امان پر آمادہ کرنا ہے ۔ حسن رحمۃ اللہ سے پوچھا گیا کہ ” کیا بنی اسرائیل جس طرح اس حکم کے مکلف تھے ، ہم بھی ہیں ، فرمایا ہاں یقیناً اللہ کی قسم ! بنو اسرائیل کے خون اللہ کے نزدیک ہمارے خون سے زیادہ باوقعت نہ تھے ، پس ایک شخص کا بے سبب قتل سب کے قتل کا بوجھ ہے اور ایک کی جان کے بچاؤ کا ثواب سب کو بچا لینے کے برابر ہے “ ۔ { ایک مرتبہ حمزہ بن عبدالمطلب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسی بات بتائیں کہ میری زندگی با آرام گزرے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کیا کسی کو مار ڈالنا تمہیں پسند ہے یا کسی کو بچا لینا تمہیں محبوب ہے ؟ } جواب دیا بچا لینا ، فرمایا : { بس اب اپنی اصلاح میں لگے رہو } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:175/2:ضعیف) پھر فرماتا ہے ’ ان کے پاس ہمارے رسول واضح دلیلیں اور روشن احکام اور کھلے معجزات لے کر آئے لیکن اس کے بعد بھی اکثر لوگ اپنی سرکشی اور دراز دستی سے باز نہ رہے ‘ ۔ بنو قینقاع کے یہود و بنو قریظہ اور بنو نضیر وغیرہ کو دیکھ لیجئے کہ اوس اور خزرج کے ساتھ مل کر آپس میں ایک دوسرے سے لڑتے تھے اور لڑائی کے بعد پھر قیدیوں کے فدیئے دے کر چھڑاتے تھے اور مقتول کی دیت ادا کرتے تھے ۔ جس پر انہیں قرآن میں سمجھایا گیا کہ ’ تم سے عہد یہ لیا گیا تھا کہ نہ تو اپنے والوں کے خون بہاؤ ، نہ انہیں دیس سے نکالو لیکن تم نے باوجود پختہ اقرار اور مضبوط عہد پیمان کے اس کے خلاف گو فدیئے ادا کئے لیکن نکالنا بھی تو حرام تھا ‘ ۔ ’ اس کے کیا معنی کہ کسی حکم کو مانو اور کسی سے انکار کر ، ایسے لوگوں کو سزا یہی ہے کہ دنیا میں رسوا اور ذلیل ہوں اور آخرت میں سخت تر عذابوں کا شکار ہوں ، اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ‘ ۔ «محاربہ» کے معنی حکم کے خلاف کرنا ، برعکس کرنا ، مخالفت پر تل جانا ہیں ۔ مراد اس سے کفر ، ڈاکہ زنی ، زمین میں شورش و فساد اور طرح طرح کی بدامنی پیدا کرنا ہے ۔ یہاں تک کہ سلف نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ” سکے کو توڑ دینا بھی زمین میں فساد مچانا ہے “ ۔ قرآن کی ایک اور آیت میں ہے «وَإِذَا تَوَلَّیٰ سَعَیٰ فِی الْأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَ اللہُ لَا یُحِبٰ الْفَسَادَ» ۱؎ (2-البقرۃ:205) ’ جب وہ کسی اقتدار کے مالک ہو جاتے ہیں تو فساد پھیلا دیتے ہیں اور کھیت اور نسل کو ہلاک کرنے لگتے ہیں اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں فرماتا ‘ ۔ یہ آیت مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ اس لیے کہ اس میں یہ بھی ہے کہ جب ایسا شخص ان کاموں کے بعد مسلمانوں کے ہاتھوں میں گرفتار ہونے سے پہلے ہی توبہ تلا کر لے تو پھر اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ، برخلاف اس کے اگر مسلمان ان کاموں کو کرے اور بھاگ کر کفار میں جا ملے تو حد شرعی سے آزاد نہیں ہوتا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” یہ آیت مشرکوں کے بارے میں اتری ہے ، پھر ان میں سے جو کئی مسلمان کے ہاتھ آ جانے سے پہلے توبہ کرلے تو جو حکم اس پر اس کے فعل کے باعث ثابت ہو چکا ہے وہ ٹل نہیں سکتا “ ۔