إِذِ انبَعَثَ أَشْقَاهَا
اور جب ان میں کا بڑا بدبخت اٹھ کھڑا ہوا
آل ثمود کی تباہی کے اسباب اللہ تعالیٰٰ بیان فرما رہا ہے کہ ثمودیوں نے اپنی سرکشی ، تکبر و تجّبر کی بناء پر اپنے رسول کی تصدیق نہ کی ۔ محمد بن کعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” «بِطَغْوَاہَا» کا مطلب یہ ہے کہ ان سب نے تکذیب کی “ لیکن پہلی بات ہی زیادہ اولیٰ ہے ۔ مجاہد اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم نے بھی یہی بیان کیا ہے ، اس سرکشی اور تکذیب کی شامت سے یہ اس قدر بدبخت ہو گئی کہ ان میں سے جو زیادہ بد شخص تھا وہ تیار ہو گیا اس کا نام قدار بن سالف تھا اسی نے صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں ۔ اسی کے بارے میں فرمان ہے «فَنَادَوْا صَاحِبَہُمْ فَتَعَاطَیٰ فَعَقَرَ» ۱؎ (54-القمر:29) ثمودیوں کی آواز پر یہ آ گیا اور اس نے اونٹنی کو مار ڈالا ، یہ شخص اس قوم میں ذی عزت تھا شریف تھا ذی نسب تھا قوم کا رئیس اور سردار تھا ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے خطبے میں اس اونٹنی کا اور اس کے مار ڈالنے والے کا ذکر کیا اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ جیسے ابوزمعہ تھا اسی جیسا یہ شخص بھی اپنی قوم میں شریف عزیز اور بڑا آدمی تھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4942) امام بخاری رحمہ اللہ بھی اسے تفسیر میں اور امام مسلم رحمہ اللہ جہنم کی صفت میں لائے ہیں اور سنن ترمذی ، سنن نسائی میں بھی یہ روایت تفسیر میں ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ میں تجھے دنیا بھر کے بدبخت ترین دو شخص بتاتا ہوں ایک تو احیمر ثمود جس نے اونٹنی کو مار ڈالا اور دوسرا وہ شخص جو تیری پیشانی پر زخم لگائے گا یہاں تک کہ داڑھی خون سے تربتر ہو جائے گی } ۔ (مسند احمد:263/4:حسن لغیرہ) اللہ کے رسول صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ ” اے قوم اللہ کی اونٹنی کو برائی پہنچانے سے ڈرو ، اس کے پانی پینے کے مقرر دن میں ظلم کر کے اسے پانی سے نہ روکو تمہاری اور اس کی باری مقرر ہے “ ۔ لیکن ان بدبختوں نے پیغمبر علیہ السلام کی نہ مانی جس گناہ کے باعث ان کے دل سخت ہو گئے اور پھر یہ صاف طور پر مقابلہ کے لیے تیار ہو گئے اور اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں ، جسے اللہ تعالیٰ نے بغیر ماں باپ کے پتھر کی ایک چٹان سے پیدا کیا تھا جو صالح علیہ السلام کا معجزہ اور اللہ کی قدرت کی کامل نشانی تھی اللہ بھی ان پر غضبناک ہو گیا اور ہلاکت ڈال دی ، اور سب پر ابر سے عذاب اترا ۔ یہ اس لیے کہ احیمر ثمود کے ہاتھ پر اس کی قوم کے چھوٹے بڑوں نے مرد و عورت نے بیعت کر لی تھی اور سب کے مشورے سے اس نے اس اونٹنی کو کاٹا تھا اس لیے عذاب میں بھی سب پکڑے گئے ۔ «وَلَا یَخَافُ» کو «فَلَا یَخَافُ» بھی پڑھا گیا ہے ، مطلب یہ ہے کہ اللہ کسی کو سزا کرے تو اسے یہ خوف نہیں ہوتا کہ اس کا انجام کیا ہو گا ؟ کہیں یہ بگڑ نہ بیٹھیں ، یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اس بدکار ، احیمر نے اونٹنی کو مار تو ڈالا لیکن انجام سے نہ ڈرا ، مگر پہلا قول ہی اولیٰ ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ الشمس کی تفسیر ختم ہوئی ۔