سورة الشمس - آیت 1

وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

سورج اور اس کی دھوپ کی قسم

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

کامیابی کے لیے کیا ضروری ہے؟ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” «الضٰحَیٰ» سے مراد روشنی ہے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” پورا دن مراد ہے “ ۔ امام جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” ٹھیک بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورج کی اور دن کی قسم کھائی ہے اور چاند جبکہ اس کے پیچھے آئے یعنی سورج چھپ جائے اور چاند چمکنے لگے “ ۔ ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” مہینہ کے پہلے پندرہ دن میں تو چاند سورج کے پیچھے رہتا ہے اور پچھلے پندرہ دنوں میں آگے ہوتا ہے “ ۔ زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مراد اس سے لیلۃ القدر ہے “ ۔ پھر دن کی قسم کھائی جبکہ وہ منور ہو جائے یعنی سورج دن کو گھیر لے ، بعض عربی دانوں نے یہ بھی کہا ہے کہ دن جبکہ اندھیرے کو روشن کر دے لیکن اگر یوں کہا جاتا کہ پھیلاوٹ کو وہ جب چمکا دے تو اور اچھا ہوتا ہے تاکہ «یَغْشَاہَا» میں بھی یہ معنی ٹھیک بیٹھتے ، اسی لیے مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” دن کی قسم جبکہ وہ اسے روشن کر دے “ ، امام ابن جریر رحمہ اللہ اس قول کو پسند فرماتے ہیں کہ ان سب میں ضمیر «ھَا» کا مرجع «شَّمْسِ» ہے کیونکہ اسی کا ذکر چل رہا ہے ، رات جبکہ اسے ڈھانپ لے یعنی سورج کو ڈھانپ لے اور چاروں طرف اندھیرا پھیل جائے ۔ یزید بن ذی حمایہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ” جب رات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرماتا ہے ’ میرے بندوں کو میری ایک بہت بڑی خلق نے چھپا لیا ‘ پس مخلوق رات سے ہیبت کرتی ہے حالانکہ اس کے پیدا کرنے والے سے زیادہ ہیبت کرنی چاہیئے ۔ (ابن ابی حاتم) پھر آسمان کی قسم کھاتا ہے یہاں جو «مَا» ہے یہ مصدر یہ بھی ہو سکتا ہے ، یعنی آسمان اور اس کی بناوٹ کی قسم ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا قول یہی ہے اور یہ «مَا» معنی میں «مَنْ» کے بھی ہو سکتا ہے تو مطلب یہ ہو گا کہ ’ آسمان کی قسم اور اس کے بنانے والے کی قسم ‘ ، یعنی خود اللہ کی ۔ مجاہد رحمہ اللہ یہی فرماتے ہیں یہ دونوں معنی ایک دوسرے کو لازم ملزوم ہیں ۔ «بَنا» کے معنی بلندی کے ہیں جیسے اور جگہ ہے «وَالسَّمَاء بَنَیْنَاہَا بِأَیْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ وَالْأَرْضَ فَرَشْنَاہَا فَنِعْمَ الْمَاہِدُونَ» ۱؎ (51-الذریات:48-47) ، یعنی ’ آسمان کو ہم نے قوت کے ساتھ بنایا اور ہم کشادگی والے ہیں ہم نے زمین کو بچھایا اور کیا ہی اچھا ہم بچھانے والے ہیں ‘ ۔ اس طرح یہاں بھی فرمایا کہ ’ زمین کی اور اس کی ہمواری کی اسے بچھانے ، پھیلانے کی اس کی تقسیم کی ، اس کی مخلوق کی قسم ‘ ۔ زیادہ مشہور قول اس کی تفسیر میں پھیلانے کا ہے ، اہل لغت کے نزدیک بھی یہی معروف ہے ۔ جوہری فرماتے ہیں «طَحَوْتُہٗ» مثل «ودحَوْتُہٗ» کے ہے اور اس کے معنی پھیلانے کے ہیں اکثر مفسرین کا یہی قول ہے ۔ پھر فرمایا ’ نفس کی اور اسے ٹھیک ٹھاک بنانے کی قسم ‘ یعنی اسے پیدا کیا اور آنحالیکہ یہ ٹھیک ٹھاک اور فطرت پر قائم تھا ۔ جیسے اور جگہ ہے «فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا فِطْرَتَ اللہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لَا تَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللہِ » ۱؎ (30-الروم:30) ، ’ اپنے چہرے کو قائم رکھ دین حنیف کے لیے فطرت ہے ، اللہ کی جس پر لوگوں کو بنایا اللہ کی خلق کی تبدیل نہیں ‘ ۔ حدیث میں ہے { ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں جیسے چوپائے جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے کوئی ان میں کن کٹا نہ پاؤ گے } ۔ (صحیح بخاری:1358) صحیح مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندے یکسوئی والے پیدا کئے ان کے پاس شیطان پہنچا اور دین سے ورغلا لیا } ۔ (صحیح مسلم:2865) پھر فرماتا ہے کہ ’ اللہ نے اس کے لیے بدکاری و پرہیزگاری کو بیان کر دیا اور جو چیز اس کی قسمت میں تھی اس کی طرف اس کی رہبری ہوئی ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” یعنی خیر و شر ظاہر کر دیا “ ۔ ابن جریر میں ہے ابوالاسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے پوچھا : ذرا بتاؤ تو لوگ جو کچھ اعمال کرتے ہیں اور تکلیفیں اٹھا رہے ہیں یہ کیا ان کے لیے اللہ کی جانب سے مقرر ہو چکی ہیں اور ان کی تقدیر میں لکھی جا چکی ہیں یا یہ خود آئندہ کے لیے اپنے طور پر کر رہے ہیں اس بنا پر کہ انبیاء علیہم السلام ان کے پاس آ چکے اور اللہ کی حجت ان پر پوری ہوئی ؟ میں نے جواب میں کہا نہیں نہیں بلکہ یہ چیز پہلے سے فیصل شدہ ہے اور مقدر ہو چکی ہے ۔ سیدنا عمران رضی اللہ عنہ نے کہا پھر یہ ظلم تو نہ ہو گا میں تو اسے سن کر کانپ اٹھا اور گھبرا کر کہا کہ ہر چیز کا خالق مالک وہی اللہ ہے تمام ملک اسی کے ہاتھ میں ہے اس کے افعال کی باز پرس کوئی نہیں کر سکتا وہ سب سے سوال کر سکتا ہے میرا یہ جواب سن کر سیدنا عمران رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے اور کہا اللہ تجھے درستگی عنایت فرمائے میں نے تو یہ سوالات اسی لیے کئے تھے کہ امتحان ہو جائے ، سنو ایک شخص مزینہ یا جہینہ قبیلے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہی سوال کیا جو میں نے پہلے تم سے کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وہی جواب دیا جو تم نے دیا تو اس نے کہا پھر ہمارے اعمال سے کیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا کہ جس کسی کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس منزل کے لیے پیدا کیا ہے اس سے ویسے ہی کام ہو کر رہیں گے اگر جنتی ہے تو اعمال جنت اور اگر دوزخی لکھا گیا ہے تو ویسے ہی اعمال اس پر آسان ہوں گے ، سنو قرآن میں اس کی تصدیق موجود ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَا فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا» ۱؎ (91-الشمس:7،8) یہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے ۔ (صحیح مسلم:2650) مسند احمد میں بھی ہے کہ { جس نے اپنے نفس کو پاک کیا وہ بامراد ہوا } ، یعنی اطاعت رب میں لگا رہا نکمے اعمال رذیل اخلاق چھوڑ دئیے ۔ جیسے اور جگہ ہے «دْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّیٰ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّیٰ» ۱؎ (87-الاعلیٰ:14-15) ’ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی اس نے کامیابی پا لی اور جس نے اپنے ضمیر کا ستیاناس کیا اور ہدایت سے ہٹا کر اسے برباد کیا ، نافرمانیوں میں پڑ گیا اطاعت اللہ کو چھوڑ بیٹھا یہ ناکام اور نامراد ہوا ‘ ۔ اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ’ جس کے نفس کو اللہ تعالیٰ نے پاک کیا اور بامراد ہوا اور جس کے نفس کو اللہ نے نیچے گرا دیا وہ برباد ، خائب اور خاسر رہا ‘ ۔ عوفی اور علی بن ابوطلحہ رحمہ اللہ علیہم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی روایت کرتے ہیں ، ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا» پڑھ کر فرمایا کہ جس نفس کو اللہ نے پاک کیا اس نے چھٹکارا پا لیا } ۔ لیکن اس حدیث میں ایک علت تو یہ ہے کہ جویبربن سعید متروک الحدیث ہے دوسری علت یہ ہے کہ ضحاک جو عبداللہ سے روایت کرتے ہیں ان کی ملاقات ثابت نہیں ۔ طبرانی کی حدیث میں ہے کہ { «فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا» پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی « اللہُمَّ آتِ نَفْسِی تَقْوَاہَا أَنْتَ وَلِیّہَا وَمَوْلَاہَا وَخَیْر مَنْ زَکَّاہَا» } ۱؎ (طبرانی کبیر:11191:ضعیف) ابن ابی حاتم کی حدیث میں یہ دعا یوں وارد ہوئی ہے « اللہُمَّ آتِ نَفْسِی تَقْوَاہَا وَزَکِّہَا أَنْتَ خَیْر مَنْ زَکَّاہَا أَنْتَ وَلِیّہَا وَمَوْلَاہَا» ۔ ۱؎ (ابن ابی عاصم فی السنۃ:318:ضعیف) مسند احمد کی حدیث میں ہے { ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رات کو ایک مرتبہ میری آنکھ کھلی میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بستر پر نہیں ، اندھیرے کی وجہ سے میں گھر میں اپنے ہاتھوں سے ٹٹولنے لگی تو میرے ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سجدے میں تھے اور یہ دعا پڑھ رہے تھے «رَبّ أَعْطِ نَفْسِی تَقْوَاہَا وَزَکِّہَا أَنْتَ خَیْر مَنْ زَکَّاہَا أَنْتَ وَلِیّہَا وَمَوْلَاہَا» } یہ حدیث صرف مسند احمد میں ہی ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:209/6:ضعیف) مسلم شریف اور مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگتے تھے « اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذ بِک مِنْ الْعَجْز وَالْکَسَل وَالْہَرَم وَالْجُبْن وَالْبُخْل وَعَذَاب الْقَبْر اللہُمَّ آتِ نَفْسِی تَقْوَاہَا وَزَکِّہَا أَنْتَ خَیْر مَنْ زَکَّاہَا أَنْتَ وَلِیّہَا وَمَوْلَاہَا اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذ بِک مِنْ قَلْب لَا یَخْشَع وَمِنْ نَفْس لَا تَشْبَع وَعِلْم لَا یَنْفَع وَدَعْوَۃ لَا یُسْتَجَاب لَہَا» یا اللہ ! میں عاجزی ، بیچارگی ، سستی ، تھکاوٹ ، بڑھاپے ، نامردی سے اور بخیلی اور عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں ، اے اللہ میرے دل کو اس کا تقویٰ عطا فرما اور اسے پاک کر دے تو ہی اسے بہتر پاک کرنے والا ہے تو ہی اس کا والی اور مولیٰ ہے ۔ اے اللہ ! مجھے ایسے دل سے بچا جس میں تیرا ڈر نہ ہو اور ایسے نفس سے بچا جو آسودہ نہ ہو اور ایسے علم سے بچا جو نفع نہ دے اور ایسی دعا سے بچا جو قبول نہ کی جائے } ۔ راوی حدیث میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ دعا سکھائی اور ہم تمہیں سکھاتے ہیں ۔ (صحیح مسلم:2722)