اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
ہمیں سیدھی راہ پر چلا : ف ٥۔
حصول مقصد کا بہترین طریقہ جمہور نے «صِّرَاطَ» پڑھا ہے ۔ بعض نے «ِسرَاطَ» کہا ہے اور «زے» کی بھی ایک قراۃ ہے ۔ فراء کہتے ہیں بنی عذرہ اور بنی کلب کی قراۃ یہی ہے چونکہ پہلے ثنا و صفت بیان کی تو اب مناسب تھا کہ اپنی حاجت طلب کرے ۔ جیسے کہ پہلے حدیث میں گزر چکا ہے کہ اس کا آدھا حصہ میرے لیے ہے اور آدھا میرے بندے کے لیے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ طلب کرے ۔ خیال کیجئے کہ اس میں کس قدر لطافت اور عمدگی ہے کہ پہلے پروردگار عالم کی تعریف و توصیف کی ، پھر اپنی اور اپنے بھائیوں کی حاجت طلب کی ۔ یہ وہ لطیف انداز ہے جو مقصود کو حاصل کرنے اور مراد کو پا لینے کے لیے تیر بہدف ہے ، اس کامل طریقہ کو پسند فرما کر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی ہدایت کی ۔ کبھی سوال اس طرح ہوتا ہے کہ سائل اپنی حالت اور حاجت کو ظاہر کر دیتا ہے ۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا : «رَبِّ إِنِّی لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیرٌ» ۱؎ (28-القصص:24) الخ یعنی ’پروردگار جو بھلائیاں تو میری طرف نازل فرمائے میں اس کا محتاج ہوں‘ ۔ یونس علیہ السلام نے بھی اپنی دعا میں کہا : «لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ» ۲؎ (21-الأنبیاء:87) الخ یعنی ’الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے میں ظالموں میں سے ہوں‘ ۔ کبھی سوال اس طرح بھی ہوتا ہے کہ سائل صرف تعریف اور بزرگی بیان کر کے چپ ہو جاتا ہے جیسے کسی شاعر کا قول ہے «أَأَذْکُرُ حَاجَتِی أَمْ قَدْ کَفَانِی ... حَیَاؤُکَ إِنَّ شِیمَتَکَ الْحَیَاءُ ... إِذَا أَثْنَی عَلَیْکَ الْمَرْءُ یَوْمًا ... کَفَاہُ مِنْ تَعَرٰضِہِ الثَّنَاءُ» کہ مجھے اپنی حاجت کے بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تیری مہربانیوں بھری بخشش مجھے کافی ہے میں جانتا ہوں کہ داد و دہش تیری پاک عادتوں میں داخل ہے لیکن تیری پاکیزگی بیان کر دینا ، تیری حمد و ثنا کرنا ہی مجھے اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے کافی ہے ۔ ہدایت کے معنی یہاں پر ارشاد اور توفیق کے ہیں ۔ کبھی تو ہدایت بنفسہ متعدی ہوتی ہے جیسے یہاں ہے تو معنی «أَلْہِمْنَا ، وَفِّقْنَا ، ارْزُقْنَا» اور «اعْطِنَا» یعنی ہمیں عطا فرمائے ہوں گے اور جگہ ہے : «وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ» ۳؎ (90-البلد:10) الخ یعنی ’ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے‘ بھلائی اور برائی دونوں کے ۔ اور کبھی ہدایت «الیٰ» کے ساتھ متعدی ہوتی ہے ، جیسے فرمایا : «اجْتَبَاہُ وَہَدَاہُ إِلَیٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ» ۴؎ (16-النحل:121) اور فرمایا : «فَاہْدُوہُمْ إِلَیٰ صِرَاطِ الْجَحِیمِ» ۵؎ (37-الصافات:23) یہاں ہدایت ارشاد اور دلالت کے معنی میں ہے ۔ اسی طرح فرمان ہے : «وَإِنَّکَ لَتَہْدِی إِلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ» ۶؎ (42-الشوری:52) الخ یعنی ’تو البتہ سیدھی راہ دکھاتا ہے‘ ، اور کبھی ہدایت «لام» کے ساتھ متعدی ہوتی ہے جیسے جنتیوں کا قول قرآن کریم میں ہے : «الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی ہَدَانَا لِہٰذَا» ۷؎ (7-الأعراف:43) الخ یعنی ’اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس کی راہ دکھائی یعنی توفیق دی اور ہدایت والا بنایا‘ ۔ «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» کے معنی سنئے ۔ امام ابو جعفر بن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد اس سے واضح اور صاف راستہ ہے جو کہیں سے ٹیڑھا نہ ہو ۔ عرب کی لغت میں اور شاعروں کے شعر میں یہ معنی صاف طور پر پائے جاتے ہیں اور اس پر بےشمار شواہد موجود ہیں ۔ «صِّرَاطَ» کا استعمال بطور استعارہ کے قول اور فعل پر بھی آتا ہے اور پھر اس کا وصف استقامت اور ٹیڑھ پن کے ساتھ بھی آتا ہے ۔ سلف اور متاخرین مفسرین سے اس کی بہت سی تفسیریں منقول ہیں اور ان سب کا خلاصہ ایک ہی ہے اور وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور تابعداری ہے ۔ صراط مستقیم کیا ہے؟ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ {صراط مستقیم کتاب اللہ ہے} ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:174:ضعیف جدا) ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے بھی روایت کی ہے ۔ فضائل قرآن کے بارے میں پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ {اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی ، حکمتوں والا ذکر اور سیدھی راہ یعنی صراط مستقیم یہی اللہ کی کتاب قرآن کریم ہے} ۲؎ ۔ (سنن ترمذی:2906،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول بھی یہی ہے اور مرفوع حدیث کا بھی موقوف ہونا ہی زیادہ مشابہ ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم «اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ» کہئے یعنی ہمیں ہدایت والے راستہ کا الہام کر اور اس دین قیم کی سمجھ دے جس میں کوئی کجی نہیں ۔ آپ سے یہ قول بھی مروی ہے کہ اس سے مراد اسلام ہے ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی یہی تفسیر منقول ہے ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» سے مراد اسلام ہے جو ہر اس چیز سے جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے زیادہ وسعت والا ہے ۔ ابن حنفیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ دین ہے جس کے سوا اور دین مقبول نہیں ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» اسلام ہے ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں بھی مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان کی کہ «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں ، ان میں کئی ایک کھلے ہوئے دروازے ہیں اور دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں ، «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» کے دروازے پر ایک پکارنے والا مقرر ہے ، جو کہتا ہے کہ اے لوگو ! تم سب کے سب اسی سیدھی راہ پر چلے جاؤ ، ٹیڑھی ترچھی ادھر ادھر کی راہوں کو نہ دیکھو نہ ان پر جاؤ ۔ اور اس راستے سے گزرنے والا کوئی شخص جب ان دروازوں میں سے کسی ایک کو کھولنا چاہتا ہے تو ایک پکارنے والا کہتا ہے خبردار اسے نہ کھولنا ۔ اگر کھولا تو اس راہ لگ جاؤ گے اور «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» سے ہٹ جاؤ گے ۔ پس «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» تو اسلام ہے اور دیواریں اللہ کی حدیں ہیں اور کھلے ہوئے دروازے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور دروازے پر پکارنے والا قرآن کریم ہے ، اور راستے کے اوپر سے پکارنے والا زندہ ضمیر ہے جو ہر ایماندار کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور واعظ کے ہوتا ہے} ۱؎ ۔ (سنن ترمذی:2859،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث ابن ابی حاتم ، ابن جریر ، ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور اس کی اسناد حسن صحیح ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد حق ہے ۔ ان کا قول سب سے زیادہ مقبول ہے اور مذکورہ اقوال کا کوئی مخالف نہیں ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد کے آپ کے دونوں خلیفہ ہیں ۔ حسن رحمہ اللہ اس قول کی تصدیق اور تحسین کرتے ہیں ۔ دراصل یہ سب اقوال صحیح ہیں اور ایک دوسرے سے ملے جلے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں خلفاء صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما کا تابعدار حق کا تابع ہے اور حق کا تابع اسلام کا تابع ہے اور اسلام کا تابع قرآن کا مطیع ہے اور قرآن اللہ کی کتاب اس کی طرف سے مضبوط رسی اور اس کی سیدھی راہ ہے ۔ لہٰذا «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» کی تفسیر میں یہ تمام اقوال صحیح ہیں اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» وہ ہے جس پر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا ۔ امام ابوجعفر بن جریر رحمہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ میرے نزدیک اس آیت کی تفسیر میں سب سے اولیٰ یہ ہے کہ ہم کو توفیق دی جائے اس کی جو اللہ کی مرضی کی ہو اور جس پر چلنے کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں سے راضی ہوا ہو اور ان پر انعام کیا ہو ، «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» یہی ہے ۔ اس لیے کہ جس شخص کو اس کی توفیق مل جائے ، جس کی توفیق اللہ کے نیک بندوں کو تھی جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا تھا جو نبی ، صدیق ، شہید اور صالح لوگ تھے انہوں نے اسلام کی اور رسولوں کی تصدیق کی ، کتاب اللہ کو مضبوط تھام رکھا ، اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لائے ۔ اس کے منع کیے ہوئے کاموں سے رک گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے چاروں خلیفوں رضی اللہ عنہم اور تمام نیک بندوں کی راہ کی توفیق مل جائے گی تو یہی «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ مومن کو تو اللہ کی طرف سے ہدایت حاصل ہو چکی ہے پھر نماز اور غیر نماز میں ہدایت مانگنے کی کیا ضرورت ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مراد اس سے ہدایت پر ثابت قدمی اور رسوخ اور بینائی اور ہمیشہ کی طلب ہے اس لیے کہ بندہ ہر ساعت اور ہر حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا محتاج ہے وہ خود اپنی جان کے نفع نقصان کا مالک نہیں بلکہ دن رات اپنے اللہ کا محتاج ہے اسی لیے اسے سکھایا کہ ہر وقت وہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرتا رہے اور ثابت قدمی اور توفیق چاہتا رہے ۔ بھلا اور نیک بخت انسان وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے در کا بھکاری بنا لے وہ اللہ ہر پکارنے والے کی پکار کے قبول کرنے کا کفیل ہے ۔ بالخصوص بےقرار محتاج اور اس کے سامنے اپنی حاجت دن رات پیش کرنے والے کی ہر پکار کو قبول کرنے کا ضامن ہے ۔ اور جگہ قرآن کریم میں ہے : «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا آمِنُوا بِ اللہِ وَرَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی نَزَّلَ عَلَیٰ رَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ» ۱؎ (4-النساء:136) الخ یعنی ’اے ایمان والو ! اللہ پر ، اس کے رسولوں پر ، اس کی اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول کی طرف نازل فرمائی اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل ہوئیں ، سب پر ایمان لاؤ ۔ اس آیت میں ایمان والوں کو ایمان لانے کا حکم دینا اور ہدایت والوں کو ایمان لانے کا حکم دینا ایسا ہی ہے جیسے یہاں ہدایت والوں کو ہدایت کی طلب کرنے کا حکم دینا ۔ مراد دونوں جگہ ثابت قدمی اور اور استمرار ہے اور ایسے اعمال پر ہمیشگی کرنا جو اس مقصد کے حاصل کرنے میں مدد پہنچائیں ۔ اس پر یہ اعتراض وارد ہو بھی نہیں سکتا کہ یہ حاصل شدہ چیز کا حاصل کرنا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور دیکھئیے اللہ رب العزت نے اپنے ایماندار بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ کہیں : «رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْکَ رَحْمَۃً إِنَّکَ أَنْتَ الْوَہَّابُ» ۱؎ (3-آل عمران:8) الخ یعنی ’اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو ہدایت کے بعد ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما تو بہت بڑا دینے والا اور عطا کرنے والا ہے‘ ۔ یہ بھی وارد ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز مغرب کی تیسری رکعت سورۃ فاتحہ کے بعد اس آیت کو پوشیدگی سے پڑھا کرتے تھے پس «اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ» کے معنی یہ ہوئے کہ الہٰ ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھ اور اس سے ہمیں نہ ہٹا ۔