أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھولے جاتے ہو اور تم کتاب پڑھتے ہو پھر کی نہیں سمجھتے ؟ (ف ٢) ۔
دوغلاپن اور یہودی یعنی اہل کتاب اس علم کے باوجود جو کہے اور نہ کرے “ اس پر کتنا عذاب نازل ہوتا ہے پھر تم خود ایسا کرنے لگے ہو ؟ جیسا دوسروں کو تقویٰ طہارت اور پاکیزگی سکھاتے ہو خود بھی تو اس کے عامل بن جاؤ لوگوں کو روزے نماز کا حکم دینا اور خود اس کے پابند نہ ہونا یہ تو بڑی شرم کی بات ہے دوسروں کو کہنے سے پہلے انسان کو خود عامل ہونا ضروری ہے اپنی کتاب کے ساتھ کفر کرنے سے لوگوں کو روکتے ہو لیکن اللہ کے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا کر تم خود اپنی ہی کتاب کے ساتھ کفر کیوں کرتے ہو ؟ یہ بھی مطلب ہے کہ دوسروں کو اس دین اسلام کو قبول کرنے کے لیے کہتے ہو مگر دنیاوی ڈر خوف سے خود قبول نہیں کرتے ۔ سیدنا ابوالدردا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں انسان پورا سمجھ دار نہیں ہو سکتا جب تک کہ لوگوں کو اللہ کے خلاف کام کرتے ہوئے دیکھ کر ان کا دشمن نہ بن جائے اور اپنے نفس کا ان سے بھی زیادہ ۔ ان لوگوں کو اگر رشوت وغیرہ نہ ملتی تو حق بتا دیتے لیکن خود عامل نہ تھے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی ۔ مبلغین کے لئے خصوصی ہدایت یہاں پر یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اچھی چیز کا حکم دینے پر ان کی برائی نہیں کی گئی بلکہ خود نہ کرنے پر برائی بیان کی گئی ہے اچھی بات کو کہنا تو خود اچھائی ہے بلکہ یہ تو واجب ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انسان کو خود بھی اس پر عمل کرنا چاہیئے جیسے شعیب علیہ السلام نے فرمایا تھا آیت «وَمَا أُرِیدُ أَنْ أُخَالِفَکُمْ إِلَیٰ مَا أَنْہَاکُمْ عَنْہُ إِنْ أُرِیدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیقِی إِلَّا بِ اللہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ أُنِیبُ» ( 11-ہود : 88 ) یعنی میں ایسا نہیں ہوں کہ تمہیں جس کام سے روکوں وہ خود کروں میرا ارادہ تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح کا ہے میری توفیق اللہ کی مدد سے ہے میرا بھروسہ اسی پر ہے اور میری رغبت و رجوع بھی اسی کی طرف ہے ۔ پس نیک کاموں کے کرنے کے لیے کہنا بھی واجب ہے اور خود کرنا بھی ۔ ایک واجب کو نہ کرنے سے دوسرا بھی چھوڑ دینا نہیں چاہیئے ۔ علماء سلف و خلف کا قول یہی ہے گو بعض کا ایک ضعیف قول یہ بھی ہے کہ برائیوں والا دوسروں کو اچھائیوں کا حکم نہ دے لیکن یہ قول ٹھیک نہیں ، پھر ان حضرات کا اس آیت سے دلیل پکڑنا تو بالکل ہی ٹھیک نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے اور خود بھی بھلائی کرے اور برائی سے رکے ۔ اگر دونوں چھوڑے گا تو دوہرا گنہگار ہو گا ایک کے ترک پر اکہرا ۔ طبرانی کی معجم کبیر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عالم لوگوں کو بھلائی سکھائے اور خود عمل نہ کرے اس کی مثال چراغ جیسی ہے کہ لوگ اسی کی روشنی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ لیکن وہ خود جل رہا ہے ۔ (طبرانی کبیر:1681:جید) یہ حدیث غریب ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں تو کہا گیا کہ یہ آپ کی امت کے خطیب اور واعظ اور عالم ہیں جو لوگوں کو بھلائی سکھاتے تھے مگر خود نہیں کرتے تھے علم کے باوجود سمجھتے نہیں تھے ۔ (مسند احمد:12879:صحیح بالشواھد) دوسری حدیث میں ہے کہ ان کی زبانیں اور ہونٹ دونوں کاٹے جا رہے تھے یہ حدیث صحیح ہے ابن حبان ابن ابی حاتم ابن مردویہ وغیرہ میں موجود ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:476:صحیح) سیدنا ابووائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما سے کچھ نہیں کہتے آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ تمہیں سنا کر ہی کہوں تو ہی کہنا ہو گا میں تو انہیں پوشیدہ طور پر ہر وقت کہتا رہتا ہوں لیکن میں کسی بات کو پھیلانا نہیں چاہتا اللہ کی قسم میں کسی شخص کو سب سے افضل نہیں کہوں گا اس لیے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک شخص کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈالا جائے گا اس کی آنتیں نکل آئیں گی اور وہ اس کے اردگرد چکر کھاتا رہے گا جہنمی جمع ہو کر اس سے پوچھیں گے کہ آپ تو ہمیں اچھی باتوں کا حکم کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے تھے یہ آپ کی کیا حالت ہے ؟ وہ کہے گا افسوس میں تمہیں کہتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا میں تمہیں روکتا تھا لیکن خود نہیں رکتا تھا ( مسند احمد ) بخاری مسلم میں بھی یہ روایت ہے ۔ (صحیح بخاری:3267:صحیح) مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پڑھ لوگوں سے اتنا درگزر کرے گا جتنا جاننے والوں سے نہیں کرے گا بعض آثار میں یہ بھی وارد ہے کہ عالم کو ایک دفعہ بخشا جائے تو عام آدمی کو ستر دفعہ بخشا جاتا ہے عالم جاہل یکساں نہیں ہو سکتے قرآن کریم میں ہے آیت «قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لا یَعْلَمُونَ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُوْلُوا الأَلْبَابِ» ( 39-سورۃ الزمر : 9 ) جاننے والے اور انجان برابر نہیں نصیحت صرف عقلمند لوگ ہی حاصل کر سکتے ہیں ابن عساکر میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (طبرانی کبیر:150:22:ضعیف) نے فرمایا ۔ جنتی لوگ جہنمیوں کو دیکھ کر کہیں گے کہ تمہاری نصیحتیں سن سن کر ہم تو جنتی بن گئے مگر تم جہنم میں کیوں آ پڑے وہ کہیں گے افسوس ہم تمہیں کہتے تھے لیکن خود نہیں کرتے تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے کہا میں بھلائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے لوگوں کو روکنا چاہتا ہوں آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا کیا تم اس درجہ تک پہنچ گئے ہو ؟ اس نے کہا ہاں آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا اگر تم ان تینوں آیتوں کی فضیحت سے نڈر ہو گئے ہو تو شوق سے وعظ شروع کرو ۔ اس نے پوچھا وہ تین آیتیں کیا ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ایک تو آیت «أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَکُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ» ( البقرہ : 44 ) کیا تم لوگوں کو بھلائیوں کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے تئیں بھولے جا رہے ہو ؟ دوسری آیت آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ کَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللہِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ» ( 61-سورۃ الصف-2 ، 3 ) کیوں تم وہ کہتے ہو جو خود نہیں کرتے ؟ اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو ۔ تیسری آیت شعیب علیہ السلام کا فرمان آیت «وَمَا أُرِیدُ أَنْ أُخَالِفَکُمْ إِلَیٰ مَا أَنْہَاکُمْ عَنْہُ إِنْ أُرِیدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیقِی إِلَّا بِ اللہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ أُنِیبُ» ( 11-ہود : 88 ) یعنی میں جن کاموں سے تمہیں منع کرتا ہوں ان میں تمہاری مخالفت کرنا نہیں چاہتا ، میرا ارادہ صرف اپنی طاقت بھر اصلاح کرنا ہے کہو تم ان تینوں آیتوں سے بے خوف ہو ؟ اس نے کہا نہیں فرمایا پھر تم اپنے نفس سے شروع کرو ۔ ( تفسیر مردویہ ) ایک ضعیف حدیث طبرانی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگوں کو کسی قول و فعل کی طرف بلائے اور خود نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے غضب و غصہ میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ خود آپ عمل کرنے لگ جائے ۔ (ابو نعیم فی الحلیۃ7/2:ضعیف) ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (تفسیر قرطبی:367/1) نے بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما والی تینوں آیتیں پیش کر کے فرمایا ہے کہ میں ان کی وجہ سے قصہ گوئی پسند نہیں کرتا ۔