أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِم مَّا هُم مِّنكُمْ وَلَا مِنْهُمْ وَيَحْلِفُونَ عَلَى الْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
کیا ان کی طرف نہیں دیکھا ۔ جنہوں نے ان لوگوں سے دوستی کی ہے ۔ جن پر اللہ کا غضب ہے یہ لوگ نہ تم میں ہیں نہ ان میں اور جان بوجھ کر جھوٹی بات پر قسمیں کھاتے ہیں
دوغلے لوگوں کا کردار منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ یہ اپنے دل میں یہود کی محبت رکھتے ہیں گو وہ اصل میں ان کے بھی حقیقی ساتھی نہیں ہیں ، حقیقت میں نہ ادھر کے ہیں ، نہ ادھر کے ہیں صاف جھوٹی قسمیں کھا جاتے ہیں ، ایمانداروں کے پاس آ کر ان کی سے کہنے لگتے ہیں ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر قسمیں کھا کر اپنی ایمانداری کا یقین دلاتے ہیں اور دل میں اس کے خلاف جذبات پاتے ہیں اور اپنی اس غلط گوئی کا علم رکھتے ہوئے بے دھڑک قسمیں کھا لیتے ہیں ، ان کی ان بداعمالیوں کی وجہ سے انہیں سخت تر عذاب ہوں گے ، اس دھوکہ بازی کا برابر بدلہ انہیں دیا جائے گا ، یہ تو اپنی قسموں کو اپنی ڈھالیں بنائے ہوئے ہیں اور اللہ کی راہ سے رک گئے ہیں ، ایمان ظاہر کرتے ہیں ، کفر دل میں رکھتے ہیں اور قسموں سے اپنی باطنی بدی کو چھپاتے ہیں اور ناواقف لوگوں پر اپنی سچائی کا ثبوت اپنی قسموں سے پیش کر کے انہیں اپنا مداح بنا لیتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ انہیں بھی اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روک دیتے ہیں ، چونکہ انہوں نے جھوٹی قسموں سے اللہ تعالیٰ کے پر از صد ہزار تکریم نام کی بےعزتی کی تھی «مٰذَبْذَبِینَ بَیْنَ ذٰلِکَ لَا إِلَیٰ ہٰؤُلَاءِ وَلَا إِلَیٰ ہٰؤُلَاءِ وَمَن یُضْلِلِ اللہُ فَلَن تَجِدَ لَہُ سَبِیلًا» (4-النساء:143) اس لیے انہیں ذلت و اہانت والے عذاب ہوں گے ، جن عذابوں کو نہ ان کے مال دفع کر سکیں ، نہ اس وقت ان کی اولاد انہیں کچھ کام دے سکے گی یہ تو جہنمی بن چکے اور وہاں سے ان کا نکلنا بھی کبھی نہ ہو گا ۔ قیامت والے دن جب ان کا حشر ہو گا اور ایک بھی اس میدان میں آئے بغیر نہ رہے گا ، سب جمع ہو جائیں گے تو چونکہ زندگی میں ان کی عادت تھی کہ اپنی جھوٹ بات کو قسموں سے سچ بات کر دکھاتے تھے ، آج اللہ کے سامنے بھی اپنی ہدایت و استقامت پر بڑی بڑی قسمیں کھا لیں گے اور سمجھتے ہوں گے کہ یہاں بھی یہ چالاکی چل جائے گی مگر ان جھوٹوں کی بھلا اللہ کے سامنے چال بازی کہاں چل سکتی ہے ؟ وہ تو ان کا جھوٹا ہونا یہاں بھی مسلمانوں سے بیان فرما چکا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے کے سائے میں تشریف فرما تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آس پاس بیٹھے تھے سایہ دار جگہ کم تھی بمشکل لوگ اس میں پناہ لیے بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” دیکھو ابھی ایک شخص آئے گا جو شیطانی نگاہ سے دیکھتا ہے وہ آئے تو اس سے بات نہ کرنا “ ، تھوڑی دیر میں ایک کیری آنکھوں والا شخص آیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاس بلا کر فرمایا : ” کیوں بھئی تو اور فلاں اور فلاں مجھے کیوں گالیاں دیتے ہو ؟ “ یہ یہاں سے چلا گیا اور جن جن کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تھا انہیں لے کر آیا اور پھر تو قسموں کا تانتا باندھ دیا کہ ہم میں سے کسی نے آپ کی کوئی بے ادبی نہیں کی ۔ اس پر یہ آیت اتری کہ یہ جھوٹے ہیں ۔ (مسند احمد:267/1:حسن) یہی حال مشرکوں کا بھی دربار الٰہی میں ہو گا « ثُمَّ لَمْ تَکُن فِتْنَتُہُمْ إِلَّا أَن قَالُوا وَ اللہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِینَ انظُرْ کَیْفَ کَذَبُوا عَلَیٰ أَنفُسِہِمْ وَضَلَّ عَنْہُم مَّا کَانُوا یَفْتَرُونَ» (6-الانعام:23،24) قسمیں کھا جائیں گے کہ ہمیں اللہ کی قسم جو ہمارا رب ہے کہ ہم نے شرک نہیں کیا ۔ پھر فرماتا ہے ان پر شیطان نے غلبہ پا لیا ہے اور ان کے دل کو اپنی مٹھی میں کر لیا ہے ، یاد اللہ ، ذکر اللہ سے انہیں دور ڈال دیا ہے ۔ ابوداؤد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جس کسی بستی یا جنگل میں تین شخص بھی ہوں اور ان میں نماز نہ قائم کی جاتی ہو تو شیطان ان پر چھا جاتا ہے پس تو جماعت کو لازم پکڑے رہ ، بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہو “ ۔ سائب رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہاں مراد جماعت سے نماز کی جماعت ہے ۔ (سنن ابوداود:547،قال الشیخ الألبانی:حسن) پھر فرماتا ہے کہ اللہ کے ذکر کو فراموش کرنے والے اور شیطان کے قبضے میں پھنس جانے والے شیطانی جماعت کے افراد ہیں ، شیطان کا یہ لشکر یقیناً نامراد اور زیاں کار ہے ۔