سورة الواقعة - آیت 19

لَّا يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلَا يُنزِفُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اس سے نہ سر دکھے گا اور نہ بکواس لگے گی

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

جنت کی نعمتیں اس شراب سے انہیں درد سر ہو نہ ان کی عقل زائل ہو بلکہ باوجود پورے سرور اور کیف کے عقل و حواس اپنی جگہ قائم رہیں گے اور کامل لذت حاصل ہو گی ۔ شراب میں چار صفتیں ہیں نشہ ، سر درد ، قے اور پیشاب ، پس پروردگار عالم نے جنت کی شراب کا ذکر کر کے ان چاروں نقصانوں کی نفی کر دی کہ وہ شراب ان نقصانات سے پاک ہے ۔ پھر قسم قسم کے میوے اور طرح طرح کے پرندوں کے گوشت انہیں ملیں گے جس میوے کو جی چاہے اور جس طرح کے گوشت کی طرف دل کی رغبت ہو موجود ہو جائے گا ، یہ تمام چیزیں لیے ہوئے ان کے سلیقہ شعار خدام ہر وقت ان کے اردگرد گھومتے رہیں گے تاکہ جس چیز کی جب کبھی خواہش ہو لے لیں ، اس آیت میں دلیل ہے کہ آدمی میوے چن چن کر اپنی خواہش کے مطابق کھا سکتا ہے ۔ مسند ابو یعلیٰ موصلی میں ہے { سیدنا عکراش بن ذویب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اپنی قوم کے صدقہ کے مال لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین اور انصار میں تشریف فرما تھے ، میرے ساتھ زکوٰۃ کے بہت سے اونٹ تھے گویا کہ وہ ریت کے درختوں کے چرئے ہوئے نوجوان اونٹ ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم کون ہو ؟ “ ، میں نے کہا : عکراش بن ذویب فرمایا : ” اپنا نسب نامہ دور تک بیان کر دو “ ، میں نے مرہ بن عبید تک کہہ سنایا اور ساتھ ہی کہا کہ زکوٰۃ مرہ بن عبید کی ہے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمانے لگے یہ میری قوم کے اونٹ ہیں ، یہ میری قوم کے صدقہ کا مال ہے ، پھر حکم دیا کہ صدقے کے اونٹوں کے نشان ان پر کر دو اور ان کے ساتھ انہیں بھی ملا دو ، پھر میرا ہاتھ پکڑ کر ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے اور فرمایا : ” کچھ کھانے کو ہے ؟ “ جواب ملا کہ ہاں چنانچہ ایک بڑے لگن میں ٹکڑے ٹکڑے کی ہوئی روٹی آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور میں نے کھانا شروع کیا ۔ میں ادھر ادھر سے نوالے لینے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے میرا داہنا ہاتھ تھام لیا ، اور فرمایا : ” اے عکراش ! یہ تو ایک قسم کا کھانا ہے ، ایک جگہ سے کھاؤ “ ، پھر ایک سینی تر کھجوروں خشک کھجوروں کی آئی میں نے صرف میرے سامنے جو تھیں انہیں کھانا شروع کیا ، ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سینی کے ادھر ادھر سے جہاں سے جو پسند آتی تھی لے لیتے تھے اور مجھ سے بھی فرمایا : ” اے عکراش ! اس میں ہر طرح کی کھجوریں ہیں جہاں سے چاہو کھاؤ ، جس قسم کی کھجور چاہو لے لو “ ، پھر پانی آیا پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ دھوئے اور وہی تر ہاتھ اپنے چہرے پر اور دونوں بازوؤں اور سر پر تین دفعہ پھیر لیے اور فرمایا : ” اے عکراش ! یہ وضو ہے اس چیز سے جسے آگ نے متغیر کیا ہو “ } ۔ ( ترمذی اور ابن ماجہ ) امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں ۔ (سنن ترمذی:1848،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب پسند تھا بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھ لیا کرتے تھے کہ کسی نے خواب دیکھا ہے ؟ اگر کوئی ذکر کرتا اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس خواب سے خوش ہوتے تو اسے بہت اچھا لگتا ۔ ایک مرتبہ ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں کہا : یا رسول اللہ ! میں نے آج ایک خواب دیکھا ہے کہ گویا میرے پاس کوئی آیا اور مجھے مدینہ سے لے چلا اور جنت میں پہنچا دیا پھر میں نے یکایک دھماکا سنا جس سے جنت میں ہل چل مچ گئی ، میں نے جو نظر اٹھا کر دیکھا تو فلاں بن فلاں اور فلاں بن فلاں کو دیکھا ، بارہ شخصوں کے نام لیے انہیں بارہ شخصوں کا ایک لشکر بنا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی دن ہوئے ایک مہم پر روانہ کیا ہوا تھا ، فرماتی ہیں انہیں لایا گیا یہ اطلس کے کپڑے پہنچے ہوئے تھے ان کی رگیں جوش مار رہی تھیں ، حکم ہوا کہ انہیں نہر بیدج میں لے جاؤں یا بیذک کہا ، جب ان لوگوں نے اس نہر میں غوطہٰ لگایا تو ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح چمکنے لگ گئے ، پھر ایک سونے کی سینی میں گدری کھجوریں آئیں جو انہوں نے اپنی حسب منشا کھائیں اور ساتھ ہی ہر طرح کے میوے جو چاروں طرف چنے ہوئے تھے جس میوے کو ان کا جی چاہتا تھا لیتے تھے اور کھاتے تھے ، میں نے بھی ان کے ساتھ شرکت کی اور وہ میوے کھائے ، مدت کے بعد ایک قاصد آیا اور کہا : فلاں فلاں اشخاص جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر میں بھیجا تھا ، شہید ہو گئے ٹھیک بارہ شخصوں کے نام لیے اور یہ وہی نام تھے جنہیں اس بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خواب میں دیکھا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان نیک بخت صحابیہ کو پھر بلوایا اور فرمایا : ” اپنا خواب دوبارہ بیان کرو ، اس نے پھر بیان کیا اور انہیں لوگوں کے نام لیے جن کے نام قاصد نے لیے تھے “ } ۔ (مسند احمد:135/3:صحیح) طبرانی میں ہے کہ { جنتی جس میوے کو درخت سے توڑے گا وہیں اس جیسا اور پھل لگ جائے گا } ۔ (طبرانی کبیر1449:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ جنتی پرند بختی اور اونٹ کے برابر ہیں جو جنت میں چرتے چگتے رہتے ہیں ، سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا : یا رسول اللہ ! یہ پرند تو نہایت ہی مزے کے ہوں گے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان کے کھانے والے ان سے بھی زیادہ ناز و نعمت والے ہوں گے “ ۔ تین مرتبہ یہی جملہ ارشاد فرما کر پھر فرمایا : ” مجھے اللہ سے امید ہے کہ اے ابوبکر ! تم ان میں سے ہو جو ان پرندوں کا گوشت کھائیں گے } ۔ (مسند احمد:221/3:صحیح وھذا اسناد ضعیف) حافظ ابوعبداللہ مقدسی کی کتاب صفۃ الجنۃ میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے طوبی ٰ کا ذکر ہو پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ جانتے ہو طوبیٰ کیا ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اللہ اور اس کے رسول کو پورا علم ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جنت کا ایک درخت ہے جس کی طولانی کا علم سوائے اللہ کے اور کسی کو نہیں ، اس کی ایک ایک شاخ تلے تیز سوار ستر ستر سال تک چلا جائے گا ۔ پھر بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو ، اس کے پتے بڑے چوڑے ہیں ، ان پر بختی اونٹنی کے برابر پرند آ کر بیٹھتے ہیں ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پھر تو یہ پرند بڑی ہی نعمتوں والے ہوں گے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان سے زیادہ نعمتوں والے ان کے کھانے والے ہوں گے اور ان شاءاللہ تم بھی انہی میں سے ہو “ } ۔ قتادہ رحمہ اللہ سے بھی یہ پچھلا حصہ مروی ہے ۔ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:2514) ابن ابی الدنیا میں حدیث ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوثر کی بابت سوال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ جنتی نہر ہے جو مجھے اللہ عزوجل نے عطا فرمائی ہے ، دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا اس کا پانی ہے ، اس کے کنارے بختی اونٹوں کی گردنوں جیسے پرند ہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : وہ پرند تو بڑے مزے میں ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان کا کھانے والا ان سے زیادہ مزے میں ہے “ } ۔ امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں ۔ (سنن ترمذی:2542،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ابی حاتم میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جنت میں ایک پرند ہے جس کے ستر ہزار پر ہیں ، جنتی کے دستر خوان پر وہ آئے گا اور اس کے ہر پر سے ایک قسم نکلے گی جو دودھ سے زیادہ سفید اور مکھن سے زیادہ نرم اور شہد سے زیادہ میٹھی ، پھر دوسرے پر سے دوسری قسم نکلے گی اسی طرح ہر پر سے ایک دوسرے سے جداگانہ ، پھر وہ پرند اڑ جائے گا } ۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور اس کے راوی رصافی اور ان کے استاد دونوں ضعیف ہیں ۔ (ابو نعیم فی صفۃ الجنۃ:340ضعیف) ابن ابی حاتم میں { سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جنتی پرند مثل بختی اونٹوں کے ہیں جو جنت کے پھل کھاتے ہیں اور جنت کی نہروں کا پانی پیتے ہیں ، جنتیوں کا دل جس پرند کے کھانے کو چاہے گا وہ اس کے سامنے آ جائے گا وہ جتنا چاہے گا جس پہلو کا گوشت پسند کرے گا کھائے گا ، پھر وہ پرند اڑ جائے گا اور جیسا تھا ویسا ہی ہو گا ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جنت کے جس پرند کو تو چاہے گا وہ بھنا بھنایا تیرے سامنے آ جائے گا } ۔ (ابو نعیم فی صفۃ الجنۃ:341ضعیف)