سورة الرحمن - آیت 54

مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ ۚ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اپنے بچھونوں پر تکیہ لگا کر بیٹھیں گے ۔ جن کے استرتافتے کے ہونگے اور دونوں باغوں (ف 2) کا میوہ جھک رہا ہوگا

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

جنت یافتہ لوگ جنتی لوگ بےفکری سے تکئیے لگائے ہوئے ہوں گے، خواہ لیٹے ہوئے ہوں خواہ باآرام بیٹھے ہوئے تکیہ سے لگے ہوئے ہوں، ان کے بچھاؤنے بھی اتنے بڑھیا ہوں گے کہ ان کے اندر کا استر بھی دبیز اور خالص زرین ریشم کا ہو گا ، پھر اوپر کا ابرا کچھ ایسا ہو گا، اسے تم خود سوچ لو ۔ مالک بن دینار اور سفیان ثوری رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں استر کا یہ حال ہے اور ابرا تو محض نورانی ہو گا- جو سراسر اظہار رحمت و نور ہو گا ۔ پھر اس پر بہترین گلکاریاں ہوں گی ، جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ان جنتوں کے پھل جنتیوں سے بالکل قریب ہیں ۔ جب چاہے جس حال میں چاہیں وہاں سے لے لیں ، لیٹے ہوں تو بیٹھا ہونے کی اور بیٹھے ہوں تو کھڑا ہونے کی ضرورت نہیں، خودبخود شاخیں جھوم جھوم کر جھکتی رہتی ہیں ۔ جیسے فرمایا «‏‏‏‏قُطُوْفُہَا دَانِیَۃٌ» (69- الحاقۃ:23) اور فرمایا «‏‏‏‏وَدَانِیَۃً عَلَیْہِمْ ظِلٰلُہَا وَذُلِّـلَتْ قُـطُوْفُہَا تَذْلِیْلًا» ‏‏‏‏ (76- الإنسان:14) الخ ، یعنی بے حد قریب میوے ہیں لینے والے کو کوئی تکلیف یا تکلف کی ضرورت نہیں ، خود شاخیں جھک جھک کر انہیں میوے دے رہی ہیں پس تم اپنے رب کی نعمتوں کے انکار سے باز رہو ۔