وَلَمَّا جَاءَ عِيسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُم بِالْحِكْمَةِ وَلِأُبَيِّنَ لَكُم بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ
اور جب عیسیٰ روشن دلیلیں لے کر آیا تو کہا کہ بےشک میں تمہارے پاس پکی بات لایا ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ تمہارے لئے بعض باتیں بیان کروں جن میں تم اختلاف کررہے ہو ۔ (ف 2) سو اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو
1 ابن جریر رحمہ اللہ یہی فرماتے ہیں اور یہی قول بہتر اور پختہ ہے ۔ پھر امام صاحب نے ان لوگوں کے قول کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ ” بعض “ کا لفظ یہاں پر ” کل “ کے معنی میں ہے اور اس کی دلیل میں لبید شاعر کا ایک شعر پیش کرتے ہیں ۔ لیکن وہاں بھی بعض سے مراد قائل کا خود اپنا نفس ہے نہ کہ سب نفس ۔ امام صاحب نے شعر کا جو مطلب بیان کیا ہے یہ بھی ممکن ہے ۔ پھر فرمایا { جو میں تمہیں حکم دیتا ہوں اس میں اللہ کا لحاظ رکھو اس سے ڈرتے رہو اور میری اطاعت گذاری کرو جو لایا ہوں اسے مانو یقین مانو کہ تم سب اور خود میں اس کے غلام ہیں اس کے محتاج ہیں اس کے در کے فقیر ہیں اس کی عبادت ہم سب پر فرض ہے وہ «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ» ہے } ۔ بس یہی توحید کی راہ راہ مستقیم ہے اب لوگ آپس میں متفرق ہو گئے بعض تو کلمۃ اللہ کو اللہ کا بندہ اور رسول ہی کہتے تھے اور یہی حق والی جماعت تھی اور بعض نے ان کی نسبت دعویٰ کیا کہ وہ اللہ کے فرزند ہیں ۔ اور بعض نے کہا آپ علیہ السلام ہی اللہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں دعوں سے پاک ہے اور بلند و برتر ہے ۔ اسی لیے ارشاد فرماتا ہے کہ ’ ان ظالموں کے لیے خرابی ہے قیامت والے دن انہیں المناک عذاب اور درد ناک سزائیں ہوں گی ‘ ۔