اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ
اللہ اپنے بندوں پر نرمی کرتا ہے ۔ جسے چاہتا ہے رزق دیتا ہے اور وہ قوی غالب ہے
غفور و رحیم اللہ اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے ایک کو دوسرے کے ہاتھ سے روزی پہنچا رہا ہے ایک بھی نہیں جسے اللہ بھول جائے نیک بد ہر ایک اس کے ہاں کا وظیفہ خوار ہے جیسے فرمایا «وَمَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّہَا وَمُسْـتَوْدَعَہَا ۭ کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مٰبِیْنٍ » ( 11-ھود : 6 ) ، زمین پر چلنے والے تمام جانداروں کی روزیوں کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے وہ ہر ایک کے رہنے سہنے کی جگہ کو بخوبی جانتا ہے اور سب کچھ لوح محفوظ میں لکھا ہوا بھی ہے وہ جس کے لیے چاہتا ہے کشادہ روزی مقرر کرتا ہے وہ طاقتور غالب ہے جسے کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی پھر فرماتا ہے جو آخرت کے اعمال کی طرف توجہ کرتا ہے ہم خود اس کی مدد کرتے ہیں اسے قوت طاقت دیتے ہیں اس کی نیکیاں بڑھاتے رہتے ہیں کسی نیکی کو دس گنی کر دیتے ہیں کسی کو سات سو گنا کسی کو اس سے بھی زیادہ ۔ الغرض آخرت کی چاہت جس دل میں ہوتی ہے اس شخص کو نیک اعمال کی توفیق اللہ کی طرف سے عطا فرمائی جاتی ہے ۔ اور جس کی تمام کوشش دنیا حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہیں آخرت کی طرف اس کی توجہ نہیں ہوتی تو وہ دونوں جہاں سے محروم رہتا ہے دنیا کا ملنا اللہ کے ارادے پر موقوف ہے ممکن ہے وہ ہزاروں جتن کر لے اور دنیا سے بھی محروم رہ جائے ۔ بد نیتی کے باعث عقبیٰ تو برباد کر ہی چکا تھا ۔ دنیا بھی نہ ملی تو دونوں جہان سے بھی گیا اور تھوڑی سی دنیا مل بھی گئی تو کیا ۔ دوسری آیت میں اس مضمون کو مقید بیان کیا گیا ہے ۔ فرمان ہے «مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّــلْنَا لَہٗ فِیْہَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نٰرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہٗ جَہَنَّمَ ۚ یَصْلٰیہَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَۃَ وَسَعَیٰ لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولٰئِکَ کَانَ سَعْیُہُم مَّشْکُورًا کُلًّا نٰمِدٰ ہٰؤُلَاءِ وَہٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّکَ ۚ وَمَا کَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحْظُورًا انظُرْ کَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلَیٰ بَعْضٍ ۚ وَلَلْآخِرَۃُ أَکْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَکْبَرُ تَفْضِیلًا» ( 17- الإسراء : 21-18 ) ، یعنی جو شخص دنیا کا ہو گا ایسے لوگوں میں سے ہم جسے چاہیں اور جتنا چاہیں دے دیں گے پھر اس کے لیے جہنم تجویز کریں گے جس میں وہ بدحال اور راندہ درگاہ ہو کر داخل ہو گا اور جو آخرت کی طلب کرے گا اور اس کے لیے جو کوشش کرنی چاہیئے کرے گا اور وہ با ایمان بھی ہو گا ۔ تو ناممکن ہے کہ اس کی کوشش کی قدر دانی نہ کی جائے ۔ دنیوی بخشش و عطا تو عام ہے ۔ اس سے ہم ان سب کی امداد کیا کرتے ہیں اور تیرے رب کی یہ دنیوی عطا کسی پر بند نہیں ، خود دیکھ لو کہ ہم نے ایک کو دوسرے پر کس طرح فوقیت دے رکھی ہے یقین مان لو کہ درجوں کے اعتبار سے بھی اور فضیلت کی حیثیت سے بھی آخرت بہت بڑی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اس امت کو برتری اور بلندی کی نصرت اور سلطنت کی خوشخبری ہو ان میں سے جو شخص دینی عمل دنیا کے لیے کرے گا اسے آخرت میں کوئی حصہ نہ ملے گا ۔(مسند احمد:134/5:اسناد قوی)۔