سورة ص - آیت 49

هَٰذَا ذِكْرٌ ۚ وَإِنَّ لِلْمُتَّقِينَ لَحُسْنَ مَآبٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

یہ ایک نصیحت ہے اور بےشک متقیوں کا اچھا ٹھکانہ ہے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

صالحین کے لئے اجر نیکوکار تقویٰ والوں کے لیے دار آخرت میں کتنا پاک بدلہ اور کیسی پیاری جگہ ہے ؟ ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن کے دروازے ان کے لیے بند نہیں بلکہ کھلے ہوئے ہیں ۔ کھلوانے کی بھی زحمت نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنت میں ایک محل عدن ہے جس کے آس پاس برج ہیں جس کے پانچ ہزار دروازے ہیں اور ہر دروازے پر پانچ ہزار چادریں ہیں ان میں صرف نبی یا صدیق یا شہید یا عادل بادشاہ رہیں گے ۔[ (المیزان:4602)] اور یہ تو بہت سی بالکل صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں ۔ اپنے تختوں پر تکئے لگائے بے فکری سے چار زانو با آرام بیٹھے ہوئے ہوں گے ۔ اور جس قوم کو جس میوے شراب کا جی چاہے حکم کے ساتھ خدام باسلیقہ حاضر کر دیں گے ۔ ان کے پاس ان کی بیویاں ہوں گی جو عفیفہ ، پاک دامن ، نیچی نگاہوں والی اور ان سے محبت و عشق رکھنے والی ہوں گی ۔ جن کی نگاہیں کبھی دوسرے کی طرف نہ اٹھی ہیں نہ اٹھیں نہ اٹھ سکیں ۔ ان کی ہم عمر ہوں گی ان کی عمروں کے لائق ہوں گی ۔ ان صفات والی جنت کا وعدہ اللہ سے ڈرتے رہنے والے بندوں سے ہے ، قیامت کے دن یہ اس کے وارث و مالک ہوں گے جبکہ قبروں سے اٹھ کر آگ سے نجات پا کر حساب سے فارغ ہو کر یہاں آ کر بہ آرام بسیں گے ۔ یہ ہے ہمارے انعام جس میں نہ کبھی کمی آئے گی نہ یہ منقطع ہو گا ۔ جیسے فرمایا «مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ بَاقٍ» ( 16- النحل : 96 ) تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ ختم ہو جاتا ہے اور اللہ کے پاس جو ہے وہ باقی رہنے والا ہے اور آیت میں ہے اور جگہ غیر ممنون بھی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ نہ اس میں کبھی کمی ہے وہ باقی رہنے والا ہے اور آیت میں غیرجذوذ ہے اور جگہ غیرممنون بھی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ نہ اس میں کبھی کمی اور گھاٹا آئے نہ کبھی وہ ختم اور فنا ہو ۔ جیسے ارشاد ہے «اُکُلُہَا دَاۗیِٕمٌ وَّظِلٰہَا ۭ تِلْکَ عُقْبَی الَّذِیْنَ اتَّقَوْاڰ وَّعُقْبَی الْکٰفِرِیْنَ النَّارُ» ( 13- الرعد : 35 ) اس کے میوے اور کھانے پینے اور اس کے سائے دائمی ہیں ۔ پرہیزگاروں کا انجام یہی ہے اور کافروں کا انجام جہنم ہے ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔