مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ
انصاف کے دن کا مالک ہے : ف ٣۔
حقیقی وارث مالک کون ہے؟ بعض قاریوں نے «مَلِکِ» پڑھا ہے اور باقی سب نے «مَالِکِ» اور دونوں قراتیں صحیح اور متواتر ہیں اور سات قراتوں میں سے ہیں اور «مَالِکِ» کے «لام» کے زیر اور اس کے سکون کے ساتھ ۔ اور «مَلِیکٌ» اور «مَلَکِی» بھی پڑھا گیا ہے پہلے کی دونوں قراتیں معانی کی رو ترجیح ہیں اور دونوں صحیح ہیں اور اچھی بھی ۔ زمخشری نے «مَلِکِ» کو ترجیح دی ہے اس لیے کہ حرمین والوں کی یہ قرأت ہے ۔ اور قرآن میں بھی «لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ» ۱؎ (40-غافر:16) اور «قَوْلُہُ الْحَقٰ وَلَہُ الْمُلْکُ» ۲؎ (6-الأنعام:73) ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بھی حکایت بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے «مَلِکِ» پڑھا اس بنا پر کہ «فِعْلٌ» اور «فَاعِلٌ» اور «مَفْعُولٌ» آتا ہے لیکن یہ شاذ اور بےحد غریب ہے ۔ ابوبکر بن داؤد رحمہ اللہ نے اس بارے میں ایک غریب روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تینوں خلفاء اور معاویہ رضی اللہ عنہم اور ان کے لڑکے «مَالِکِ» پڑھتے تھے ۔ ابن شہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے مروان نے «مَالِکِ» پڑھا ۔ میں کہتا ہوں مروان کو اپنی اس قرأت کی صحت کا علم تھا راوی راوی حدیث ابن شہاب رحمہ اللہ کو علم نہ تھا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن مردویہ نے کئی سندوں سے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «مَالِکِ» پڑھتے تھے ۔ «مَالِکِ» کا لفظ «مَلِکِ» سے ماخوذ ہے جیسے کہ قرآن میں ہے : «إِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَیْہَا وَإِلَیْنَا یُرْجَعُونَ» ۱؎ (19-مریم:40) الخ یعنی ’زمین اور اس کے اوپر کی تمام مخلوق کے مالک ہم ہی ہیں اور ہماری ہی طرف سب لوٹا کر لائے جائیں گے‘ ۔ اور فرمایا : «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ * مَلِکِ النَّاسِ» ۲؎ (114-الناس:1-2) الخ یعنی ’کہہ کہ میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب اور لوگوں کے مالک کی‘ ۔ اور «مَلِکِ» کا لفظ «مُلْکُ» سے ماخوذ ہے ، جیسے فرمایا : «لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ» ۳؎ (40-غافر:16) الخ یعنی ’آج ملک کس کا ہے صرف اللہ واحد غلبہ والے کا‘ ۔ اور فرمایا : «قَوْلُہُ الْحَقٰ وَلَہُ الْمُلْکُ» ۱؎ (6-الأنعام:73) الخ یعنی ’اسی کا فرمان ہے اور اسی کا سب ملک ہے‘ ۔ اور فرمایا : «الْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ الْحَقٰ لِلرَّحْمٰنِ وَکَانَ یَوْمًا عَلَی الْکَافِرِینَ عَسِیرًا» ۲؎ (25-الفرقان:26) یعنی ’آج ملک رحمن ہی کا ہے اور آج کا دن کافروں پر بہت سخت ہے‘ ۔ اس فرمان میں قیامت کے دن ساتھ ملکیت کی تخصیص کرنے سے یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے ، اس لیے کہ پہلے اپنا وصف «رَبٰ الْعَالَمِینَ» ہونا بیان کر چکا ہے دنیا اور آخرت دونوں کو شامل ہے ۔ قیامت کے دن کے ساتھ اس کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ اس دن تو کوئی ملکیت کا دعویدار بھی نہ ہو گا ۔ بلکہ بغیر اس حقیقی مالک کی اجازت کے زبان تک نہ ہلا سکے گا ۔ جیسے فرمایا : «یَوْمَ یَقُومُ الرٰوحُ وَالْمَلَائِکَۃُ صَفًّا لَا یَتَکَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا» ۳؎ (78-النبأ:38) یعنی ’جس دن روح القدس اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے اور کوئی کلام نہ کر سکے گا ۔ یہاں تک کہ رحمن اسے اجازت دے اور وہ ٹھیک بات کہے گا‘ ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے : «وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا ہَمْسًا» ۴؎ (20-طہ:108) الخ یعنی ’سب آوازیں رحمن کے سامنے پست ہوں گی اور گنگناہٹ کے سوا کچھ نہ سنائی دے گا‘ ، اور فرمایا : «یَوْمَ یَأْتِ لَا تَکَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِہِ فَمِنْہُمْ شَقِیٌّ وَسَعِیدٌ» ۵؎ (11-ہود:105) یعنی ’جب قیامت آئے گی اس دن بغیر اللہ تبارک و تعالیٰ کی اجازت کے کوئی شخص نہ بول سکے گا ۔ بعض ان میں سے بدبخت ہوں گے اور بعض سعادت مند‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس دن اس کی بادشاہت میں اس کے سوا کوئی بادشاہ نہ ہو گا جیسے کہ دنیا میں مجازاً تھے ۔ «یَوْمِ الدِّینِ» سے مراد مخلوق کے حساب کا یعنی قیامت کا دن ہے جس دن تمام بھلے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ہاں اگر رب کسی برائی سے درگزر کر لے یہ اس کا اختیاری امر ہے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین اور سلف صالحین رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے ۔ بعض سے یہ بھی منقول ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرنے پر قادر ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے اس قول کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ لیکن بظاہر ان دونوں اقوال میں کوئی تضاد نہیں ، ہر ایک قول کا قائل دوسرے کے قول کی تصدیق کرتا ہے ہاں پہلا قول مطلب پر زیادہ دلالت کرتا ہے ۔ جیسے کہ فرمان ہے : «لْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ الْحَقٰ لِلرَّحْمٰنِ» ۱؎ (25-الفرقان:26) الخ اور دوسرا قول اس آیت کے مشابہ ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : «وَیَوْمَ یَقُولُ کُنْ فَیَکُونُ» ۲؎ (6-الأنعام:73) الخ یعنی ’جس دن کہے گا ”ہو جا“ بس اسی وقت ”ہو جائے گا“ ‘ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» حقیقی بادشاہ اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ جیسے فرمایا : «ہُوَ اللہُ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْمَلِکُ الْقُدٰوسُ السَّلَامُ» ۱؎ (59-الحشر:23) صحیحین میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”بدترین نام اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کا ہے جو شہنشاہ کہلائے حقیقی بادشاہ اللہ کے سوا کوئی نہیں“} ۲؎ ۔ (صحیح بخاری:6205) ایک اور حدیث میں ہے کہ {اللہ تعالیٰ زمین کو قبضہ میں لے لے گا اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں کہاں گئے زمین کے بادشاہ کہاں ہیں تکبر والے} ۳؎ (صحیح بخاری:4812) قرآن عظیم میں ہے «لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ» الخ یعنی ’کس کی ہے آج بادشاہی ؟ فقط اللہ اکیلے غلبہ والے کی‘ اور کسی کو «مَلِکِ» کہہ دینا یہ صرف مجازاً ہے ۔ جیسے کہ قرآن میں طالوت کو «مَلِکِ» کہا گیا اور «وَکَانَ وَرَاءَہُمْ مَلِکٌ» ۴؎ (18-الکہف:79) کا لفظ آیا ۔ اور بخاری مسلم میں «مُلُوکِ» کا لفظ آیا ہے ۵؎ (صحیح مسلم:1912) اور قرآن کی آیت میں «إِذْ جَعَلَ فِیکُمْ أَنْبِیَاءَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا» ۶؎ (5-المائدۃ:20) الخ یعنی ’تم میں انبیاء کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا‘ ، آیا ہے ۔ دین کے معنی بدلے جزا اور حساب کے ہیں ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : «یَوْمَئِذٍ یُوَفِّیہِمُ اللہُ دِینَہُمُ الْحَقَّ وَیَعْلَمُونَ» ۷؎ (24-النور:25) الخ یعنی ’اس دن اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا بدلہ دے گا اور وہ جان لیں گے‘ ۔ اور جگہ ہے : «أَإِنَّا لَمَدِینُونَ» ۸؎ (37-الصافات:53) الخ یعنی ’کیا ہم کو بدلہ دیا جائے گا ؟‘ حدیث میں ہے {دانا وہ ہے جو اپنے نفس سے خود حساب لے اور موت کے بعد کام آنے والے اعمال کرے} ۹؎ (سنن ترمذی:2459،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) جیسے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ تم خود اپنی جانوں سے حساب لو اس سے پہلے کہ تمہارا حساب لیا جائے اور اپنے اعمال کا خود وزن کر لو اس سے پہلے کہ وہ ترازو میں رکھے جائیں اور اس بڑی پیشی کے لیے تیار ہو جاؤ جب تم اس اللہ کے سامنے پیش کئے جاؤ گے جس سے تمہارا کوئی عمل پوشیدہ نہیں جیسے خود رب عالم نے فرما دیا : «یَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَیٰ مِنْکُمْ خَافِیَۃٌ» ۱۰؎ (69-الحاقۃ:18) یعنی ’جس دن تم پیش کئے جاؤ گے کوئی چھپی ڈھکی بات چھپے گی نہیں‘ ۔