سورة الصافات - آیت 88

فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر تاروں (ف 2) پر ایک بار نگاہ کی

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

بت کدہ آذر اور ابراہیم علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے یہ اس لیے فرمایا کہ وہ جب اپنے میلے میں چلے جائیں تو یہ ان کے عبادت خانے میں تنہارہ جائیں اور ان کے بتوں کو توڑ نے کا تنہائی میں موقعہ مل جائے ۔ اسی لیے ایک ایسی بات کہی جو درحقیقت سچی بات تھی لیکن ان کی سمجھ میں جو مطلب اس کا آیا اس سے آپ علیہ السلام نے اپنا دینی کام نکال لیا ۔ وہ تو اپنے اعتقاد کے موجب ابراہیم علیہ السلام کو سچ مچ بیمار سمجھ بیٹھے اور انہیں چھوڑ کر چلتے بنے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جو شخص کسی امر میں غور و فکر کرے تو عرب کہتے ہیں اس نے ستاروں پر نظریں ڈالیں “ ۔ مطلب یہ ہے کہ غور وفکر کے ساتھ تاروں کی طرف نگاہ اٹھائی ۔ اور سوچنے لگے کہ میں انہیں کس طرح ٹالوں ۔ سوچ سمجھ کر فرمایا کہ ” میں سقم ہوں یعنی ضعیف ہوں “ ۔ ایک حدیث میں آیا کہ { ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین ہی جھوٹ بولے ہیں جن میں سے دو تو اللہ کے دین کے لیے ان کا فرمان «فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ» ۱؎ (37-الصافات:89) اور ان کا فرمان « قَالَ بَلْ فَعَلَہ ٗٗ کَبِیْرُہُمْ ھٰذَا فَسْـَٔــلُوْہُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:63) اور ایک ان کا سارہ رضی اللہ عنہا کو اپنی بہن کہنا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3357) تو یاد رہے کہ دراصل ان میں حقیقی جھوٹ ایک بھی نہیں ۔ انہیں تو صرف مجازاً جھوٹ کہا گیا ہے کلام میں ایسی تعریفیں کسی شرعی مقصد کے لیے کرنا جھوٹ میں داخل نہیں ، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ { تعریض جھوٹ سے الگ ہے اور اس سے بے نیاز کر دیتی ہے } ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، { خلیل اللہ علیہ السلام کے ان تینوں کلمات میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس سے حکمت عملی کے ساتھ دین اللہ کی بھلائی مقصود نہ ہو } } ۔۱؎ (تاریخ دمشق لا بن عساکر:320/2:ضعیف) حضرت سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” میں بیمار ہوں سے مطلب مجھے طاعون ہو گیا ہے ۔ اور وہ لوگ ایسے مریض سے بھاگتے تھے “ ۔ سعید رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ” اللہ کے دین کی تبلیغ ان کے جھوٹے معبودوں کی تردید کے لیے خلیل اللہ علیہ السلام کی یہ ایک حکمت عملی تھی کہ ایک ستارے کو طلوع ہوتے دیکھ کر فرما دیا کہ میں مقیم ہوں “ ۔ اوروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ” میں بیمار ہونے والا ہوں یعنی یقیناً ایک مرتبہ مرض الموت آنے والا ہے ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مریض ہوں یعنی میرا دل تمہارے ان بتوں کی عبادت سے بیمار ہے “ ۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب آپ علیہ السلام کی قوم میلے میں جانے لگی تو آپ علیہ السلام کو بھی مجبور کرنے لگی آپ علیہ السلام ہٹ گئے اور فرما دیا کہ ” میں مقیم ہوں اور آسمان کی طرف دیکھنے لگے “ ۔ جب وہ انہیں تنہا چھوڑ کر چل دئیے تو آپ علیہ السلام نے بہ فراغت ان کے معبودوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ۔ وہ تو سب اپنی عید میں گئے آپ علیہ السلام چپکے چپکے اور جلدی جلدی ان کے بتوں کے پاس آئے ۔ پہلے تو فرمایا کیوں جی تم کھاتے کیوں نہیں ؟ یہاں آ کر خلیل اللہ علیہ السلام نے دیکھا کہ جو چڑھا وے ان لوگوں نے ان بتوں پر چڑھا رکھے تھے وہ سب رکھے ہوئے تھے ان لوگوں نے تبرک کی نیت سے جو قربانیاں یہاں کی تھیں وہ سب یونہی پڑی ہوئی تھیں یہ بت خانہ بڑا وسیع اور مزین تھا دروازے کے متصل ایک بہت بڑا بت تھا اور اس کے اردگرد اس سے چھوٹے پھر ان سے چھوٹے یونہی تمام بت خانہ بھرا ہوا تھا ۔ ان کے پاس مختلف قسم کے کھانے رکھے ہوئے تھے جو اس اعتقاد سے رکھے گئے تھے کہ یہاں رہنے سے متبرک ہو جائیں گے پھر ہم کھالیں گے ۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بات کا جواب نہ پاکر پھر فرمایا ” یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ بولتے کیوں نہیں “ ۔ اب تو پوری قوت سے دائیں ہاتھ سے مار کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ۔ ہاں بڑے بت کو چھوڑ دیا تاکہ اس پر بدگمانی کی جا سکے ۔ جیسا کہ سورۃ انبیاء میں گزر چکا ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر بھی بیان ہو چکی ہے ۔ بت پرست جب اپنے میلے سے واپس ہوئے بت خانے میں گھسے تو دیکھا کہ ان کے سب خدا اڑنگ بڑنگ پڑے ہوئے ہیں کسی کا ہاتھ نہیں کسی کا پاؤں نہیں کسی کا سر نہیں کسی کا دھڑ نہیں حیران ہو گئے کہ یہ کیا ہوا ؟ آخر سوچ سمجھ کر بحث مباحثے کے بعد معلوم کر لیا کہ ہو نہ ہو یہ کام ابراہیم کا ہے [علیہ الصلوۃ والسلام] ۔ اب سارے کے سارے مل جل کر خلیل علیہ السلام کے پاس دوڑے ، بھاگے ، دانت پیستے ، تلملائے کوستے گئے ۔ خلیل اللہ علیہ السلام کو تبلیغ کا اور انہیں قائل معقول کرنے کا اور سمجھانے کا اچھا موقعہ ملا فرمانے لگے ” کیوں ان چیزوں کی پرستش کرتے ہو جنہیں خود تم بناتے ہو ؟ اپنے ہاتھوں گھڑتے اور تراشتے ہو ؟ حالانکہ تمہارا اور تمہارے اعمال کا خالق اللہ ہی ہے “ ۔ ممکن ہے کہ اس آیت میں «ما» مصدریہ ہو اور ممکن ہے کہ «الَّذِی» کے معنی میں ہو ، لیکن دونوں معنی میں تلازم ہے ۔ گو اول زیادہ ظاہر ہے ۔ چنانچہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب افعال العباد میں ایک مرفوع حدیث ہے کہ { اللہ تعالیٰ ہر صانع اور اس کی صنعت کو پیدا کرتا ہے } ۔ ۱؎ (خلق افعال العباد:17:صحیح) پھر بعض نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ چونکہ اس پاک صاف بات کا کوئی جواب ان کے پاس نہ تھا تو تنگ آ کر دشمنی پر اور سفلہ پن پر اتر آئے اور کہنے لگے ایک بنیان بناؤ اس میں آگ جلاؤ اور اسے اس میں ڈال دو ۔ چنانچہ یہی انہوں نے کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو اس سے نجات دی ۔ انہی کو غلبہ دیا اور انہی کی مدد فرمائی ۔ گو انہوں نے انہیں برائی پہنچانی چاہی لیکن اللہ نے خود انہیں ذلیل کر دیا ۔ اس کا پورا بیان اور کامل تفسیر سورۃ انبیاء ۱؎ (21-الأنبیاء:1) میں گزر چکی ہے وہیں دیکھ لی جائے ۔