لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
جب تک تم اپنی پیاری چیزوں میں سے خرچ نہ کرو ‘ بھلائی کو ہرگز حاصل نہیں کرسکتے اور جو تم خرچ کرتے ہو ‘ وہ اللہ کو معلوم ہے (ف ١)
سب سے زیادہ پیاری چیز اور صدقہ سیدنا عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «بر» سے مراد جنت ہے ، یعنی اگر تم اپنی پسند کی چیزیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتے رہو گے تو تمہیں جنت ملے گی ، مسند احمد میں ہے کہ ابوطلحہ مالدار صحابی تھے مسجد کے سامنے ہی بیئرحاء نامی آپ کا ایک باغ تھا جس میں کبھی کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے جایا کرتے تھے اور یہاں کا خوش ذائقہ پانی پیا کرتے تھے جب یہ آیت اتری تو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ میرا تو سب سے زیادہ پیارا مال یہی باغ ہے میں آپ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کیا اللہ تعالیٰ مجھے بھلائی عطا فرمائے اور اپنے پاس اسے میرے لیے ذخیرہ کرے آپ کو اختیار ہے جس طرح چاہیں اسے تقسیم کر دیں آپ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمانے لگے مسلمانوں کو اس سے بہت فائدہ پہنچے گا تم اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دو چنانچہ ابوطلحہ نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں میں بانٹ دیا ،(صحیح بخاری:1461) ۱؎ بخاری و مسلم میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی خدمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے تمام مال میں سب سے زیادہ مرغوب مال خیبر کی زمین کا حصہ ہے میں اسے راہ اللہ دینا چاہتا ہوں فرمائیے کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا اسے وقف کر دو اصل روک لو اور پھل وغیرہ راہ اللہ کر دو ۔(صحیح بخاری:2737) ۱؎ مسند بزاز میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے اس آیت کی تلاوت کر کے سوچا تو مجھے کوئی چیز ایک کنیز سے زیادہ پیاری نہ تھی ۔ میں نے اس لونڈی کو راہ للہ آزاد کر دیا ، اب تک بھی میرے دل میں اس کی ایسی محبت ہے کہ اگر کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کے نام پردے کر پھر لوٹا لینا جائز ہو تو میں کم از کم اس سے نکاح کر لیتا ۔