أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ
کیا انسان (ف 1) یہ نہیں دیکھتا کہ ہم نے اس نطفہ سے پیدا کیا ، تھر تبھی وہ ہوگیا جھگڑنے بولنے والا
موت کے بعد زندگی ابی ابن خلف ملعون ایک مرتبہ اپنے ہاتھ میں ایک بوسیدہ کھوکھلی سڑی گلی ہڈی لے کر آیا اور اسے اپنے چٹکی میں ملتے ہوئے جبکہ اس کے ریزے ہوا میں اڑ رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ ان ہڈیوں کو اللہ زندہ کرے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ہاں اللہ تجھے ہلاک کر دے گا پھر زندہ کر دے گا پھر تیرا حشر جہنم کی طرف ہو گا ۔ اس پر اس سورت کی یہ آخری آیتیں نازل ہوئیں ۔ اور روایت میں ہے کہ یہ اعتراض کرنے والا عاص بن وائل تھا اور اس آیت سے لے کر ختم سورت تک کی آیتیں نازل ہوئیں اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ عبداللہ بن ابی سے ہوا تھا ۔ لیکن یہ ذرا غور طلب ہے اس لیے کہ یہ سورت مکی ہے اور عبداللہ بن ابی تو مدینہ میں تھا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:31/23:ضعیف) بہر صورت خواہ ابی کے سوال پر یہ آیتیں اتری ہوں یا عاص کے سوال پر ہیں عام ۔ لفظ انسان جو الف لام ہے وہ جنس کا ہے جو بھی دوسری زندگی کا منکر ہو اسے یہی جواب ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو چاہیئے کہ اپنے شروع پیدائش پر غور کریں ۔ جس نے ایک حقیر و ذلیل قطرے سے انسان کو پیدا کر دیا حالانکہ اس سے پہلے وہ کچھ نہ تھا پھر اس کی قدرت پر حرف رکھنے کے کیا معنی ؟ اس مضمون کو بہت سی آیتوں میں بیان فرمایا ہے جیسے «اَلَمْ نَخْلُقْکٰمْ مِّنْ مَّاءٍ مَّہِیْنٍ» ( 77- المرسلات : 20 ) اور جیسے «إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نٰطْفَۃٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیہِ فَجَعَلْنَاہُ سَمِیعًا بَصِیرًا» ( 76- الإنسان : 2 ) ، وغیرہ ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی میں تھوکا پھر اس پر انگلی رکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم کیا تو مجھے بھی عاجز کر سکتا ہے ؟ میں نے تجھے اس جیسی چیز سے پیدا کیا پھر جب ٹھیک ٹھاک درست اور چست کر دیا اور تو ذرا کس بل والا ہو گیا تو تو نے مال جمع کرنا اور مسکینوں کو دینے سے روکنا شروع کر دیا ، ہاں جب دم نرخرے میں اٹکا تو کہنے لگا اب میں اپنا تمام مال اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں ، بھلا اب صدقے کا وقت کہاں ؟ (سنن ابن ماجہ:2707،قال الشیخ الألبانی:حسن) الغرض نطفے سے پیدا کیا ہوا انسان حجت بازیاں کرنے لگا ۔ اور اپنا دوبارہ جی اٹھنا محال جاننے لگا اس اللہ کی قدرت سے نظریں ہٹالیں جس نے آسمان و زمین کو اور تمام مخلوق کو پیدا کر دیا ۔ یہ اگر غور کرتا تو اس عظیم الشان مخلوق کی پیدائش کے علاوہ خود اپنی پیدائش کو بھی دوبارہ پیدا کرنے کی قدرت کا ایک نشان عظیم پاتا ۔ لیکن اس نے تو عقل کی آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لی ۔