يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے نبی ہم نے تیرے لئے تیری وہ عورتیں حلال کردی ہیں جن کا مہر تو دے چکا ہے اور وہ (لونڈیاں بھی) جو تیرے ہاتھ کا مال ہے جو خدائے تیرے ہاتھ کا مال ہے جو خدا نے تیرے ہاتھ لگوا دیا ہے ۔ اور تیرے چچا کی بیٹیاں اور تیری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے اور مومن عورت (بھی حلال ہے) اگر اپنی جان نبی کو بخش دے (ف 2) (یعنی بن مہر نکاح میں آنا چاہے) اگر نبی بھی اس کو نکاح میں لینا چاہے (توجائز ہے) یہ خاص تیرے ہی لئے ہے سوا اور ایمانداروں کے ہمیں معلوم ہے جو ہم نے ان پران کی بیویوں اور ان کے ہاتھ کے مال (لونڈیوں) کے حق میں فرض کیا ہے تاکہ تیرے اوپر تنگی نہ رہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
حق مہر اور بصورت علیحدگی کے احکامات اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جن بیویوں کو مہر ادا کیا ہے وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حلال ہیں ‘ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ تھا جس کے پانچ سو درہم ہوتے ہیں ۔ ہاں ام المؤمنین حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا کا مہر نجاشی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے پاس سے چار سو دینار دیا تھا ۔ اور اسی طرح ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کا مہر صرف ان کی آزادی تھی ۔ خیبر کے قیدیوں میں آپ رضی اللہ عنہا بھی تھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر دیا اور اور اسی آزادی کو مہر قرار دیا اور نکاح کر لیا ، اور ام المؤمنین سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا بنت حارث مصطلقیہ نے جتنی رقم پر مکاتبہ کیا تھا وہ پوری رقم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کو ادا کر کے ان سے عقد باندھا تھا ۔ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات پر اپنی رضا مندی نازل فرمائے ۔ اسی طرح جو لونڈیاں غنیمت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضے میں آئیں وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حلال ہیں ۔ صفیہ رضی اللہ عنہا اور جویریہ رضی اللہ عنہا کے مالک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہوگئے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا ۔ ریحانہ بنت شمعون نصریہ اور ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں آئی تھیں ۔ ماریہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرزند بھی ہوا ۔ جن کا نام ابراہیم رضی اللہ عنہ تھا ۔ چونکہ نکاح کے بارے میں نصرانیوں نے افراط اور یہودیوں نے تفریط سے کام لیا تھا اس لیے اس عدل و انصاف والی سہل اور صاف شریعت نے درمیانہ راہ حق کو ظاہر کر دیا ۔ نصرانی تو سات پشتوں تک جس عورت مرد کا نسب نہ ملتا ہو ، ان کا نکاح جائز جانتے تھے اور یہودی بہن اور بھائی کی لڑکی سے بھی نکاح کر لیتے تھے ۔ پس اسلام نے بھانجی بھتیجی سے نکاح کرنے کو روکا ۔ اور چچا کی لڑکی پھوپھی کی لڑکی ماموں کی لڑکی اور خالہ کی لڑکی سے نکاح کو مباح قرار دیا ۔ اس آیت کے الفاظ کی خوبی پر نظر ڈالئے کہ عم اور خال چچا اور ماموں کے لفظ کو تو واحد لائے اور عمات اور خلات یعنی پھوپھی اور خالہ کے لفظ کو جمع لائے ۔ جس میں مردوں کی ایک قسم کی فضیلت عورتوں پر ثابت ہو رہی ہے ۔ جیسے « اللہُ وَلِیٰ الَّذِینَ آمَنُوا یُخْرِجُہُم مِّنَ الظٰلُمَاتِ إِلَی النٰورِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَوْلِیَاؤُہُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَہُم مِّنَ النٰورِ إِلَی الظٰلُمَاتِ» ۱؎ (2-البقرۃ:257) اور جیسے «وَجَعَلَ الظٰلُمٰتِ وَالنٰوْرَ» ۱؎ (6-الأنعام:1) یہاں بھی چونکہ ظلمات اور نور یعنی اندھیرے اور اجالے کا ذکر تھا اور اجالے کو اندھیرے پر فضیلت ہے اس لیے وہ لفظ ظلمات جمع لائے ، اور لفظ نور مفرد لائے ، اس کی اور بھی بہت سی نظیریں دی جا سکتی ہیں ۔ پھر فرمایا ’ جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے ‘ ۔ سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مانگا آیا تو میں نے اپنی معذوری ظاہر کی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم کر لیا ، اور یہ آیت اتری میں ہجرت کرنے والیوں میں نہ تھی بلکہ فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والیوں میں تھی “ ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3214 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مفسرین نے بھی یہی کہا ہے کہ مراد ہے کہ جنہوں نے مدینے کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی ہو ۔ قتادہ رحمہ اللہ سے ایک روایت میں اس سے مراد اسلام لانا بھی مروی ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «وَاللَّاتِی ہَاجَرْنَ مَعَکَ» ہے ۔ پھر فرمایا ’ اور وہ مومنہ عورت جو اپنا نفس اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کر دے ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں ، تو بغیر مہر دیے اسے نکاح میں لا سکتے ہیں ‘ ۔ پس یہ حکم دو شرطوں کے ساتھ ہے جیسے آیت «وَلَا یَنْفَعُکُمْ نُصْحِیْٓ اِنْ اَرَدْتٰ اَنْ اَنْصَحَ لَکُمْ اِنْ کَان اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یٰغْوِیَکُمْ ہُوَ رَبٰکُمْ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ» (11-ھود:34) میں ۔ یعنی ’ نوح علیہ السلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں اگر میں تمہیں نصیحت کرنا چاہوں اور اگر اللہ تمہیں اس نصیحت سے مفید کرنا نہ چاہے تو میری نصیحت تمہیں کوئی نفع نہیں دے سکتی ‘ ۔ اور جیسے موسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان میں «یَا قَوْمِ إِنْ کُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِ اللہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوا إِنْ کُنْتُمْ مُسْلِمِینَ» ۱؎ (10-یونس:84) یعنی ’ اے میری قوم اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو ، اور اگر تم مسلمان ہو گئے ہو تو تمہیں اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیئے ‘ ۔ پس جیسے ان آیتوں میں دو دو شرائط ہیں اسی طرح اس آیت میں بھی دو شرائط ہیں ۔ ایک تو اس کا اپنا نفس ہبہ کرنا دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اسے اپنے نکاح میں لانے کا ارادہ کرنا ۔ مسند احمد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میں اپنا نفس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کرتی ہوں ۔ پھر وہ دیر تک کھڑی رہیں ۔ تو ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے نکاح کا ارادہ نہ رکھتے ہوں تو میرے نکاح میں دے دیجئیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تمہارے پاس کچھ ہے ؟ جو انہیں مہر میں دیں ؟ } جواب دیا کہ اس تہمد کی سوا اور کچھ نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ اگر تم انہیں دے دو گے تو خود بغیر تہمد کے رہ جاؤ گے کچھ اور تلاش کرو } ۔ اس نے کہا میں اور کچھ نہیں پاتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تلاش تو کرو گو لوہے کی انگوٹھی ہی مل جائے } ۔ انہوں نے ہر چند دیکھ بھال کی لیکن کچھ نہ پایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { قرآن کی کچھ سورتیں بھی تمہیں یاد ہیں ؟ } اس نے کہا فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بس انہی سورتوں پر میں نے انہیں تمہارے نکاح میں دیا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2310) یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ۔ { سیدنا انس رضی اللہ عنہ جب یہ واقعہ بیان کرنے لگے تو ان کی صاحبزادی بھی سن رہی تھیں ۔ کہنے لگیں اس عورت میں بہت ہی کم حیاء تھی ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم سے وہ بہتر تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی رغبت کر رہی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا نفس پیش کر رہی تھیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5120) مسند احمد میں ہے کہ { ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اپنی بیٹی کی بہت سی تعریفیں کرکے کہنے لگیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میری مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے نکاح کرلیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا اور وہ پھر بھی تعریف کرتی رہیں ۔ یہاں تک کہ کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ وہ کبھی وہ بیمار پڑیں نہ سر میں درد ہوا یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پھر مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:155/3:ضعیف) ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ { اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی بیوی صاحبہ سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا تھیں } ۔ ۱؎ (بیہقی فی السنن الکبری:55/7) اور روایت میں ہے یہ قبلہ بنو سلیم میں سے تھیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:23/22:) اور روایت میں ہے یہ بڑی نیک بخت عورت تھیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:23/22:) ممکن ہے ام سلیم ہی خولہ ہوں رضی اللہ عنہا ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ دوسری کوئی عورت ہوں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ عورتوں سے نکاح کیا جن میں سے چھ تو قریشی تھیں ۔ خدیجہ ، عائشہ ، حفصہ ، ام حبیبہ ، سودہ و ام سلمہ رضی اللہ عنہن اجمعین اور تین بنو عامر بن صعصعہ کے قبیلے میں سے تھیں اور دو عورتیں قبیلہ بنوہلال بن عامر میں سے تھیں اور میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا ، یہی وہ ہیں جنہوں نے اپنا نفس رسول اللہ کوہبہ کیا تھا اور زینب رضی اللہ عنہا جن کی کنیت ام المساکین تھی ۔ اور ایک عورت بنو ابی بکرین کلاب سے ۔ یہ وہی ہے جس نے دنیا کو اختیار کیا تھا اور بنو جون میں سے ایک عورت جس نے پناہ طلب کی تھی ، اور ایک عورت اسدیہ جن کا نام زینب بنت جحش ہے رضی اللہ عنہا ۔ دو کنزیں تھیں ۔ صفیہ بنت حی بن اخطب اور جویریہ بنت حارث بن عمرو بن مصطلق خزاعیہ } ۔ ۱؎ (ابن ابی شیبۃ:270/5:مرسل و ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی عورت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا تھیں لیکن اس میں انقطاع ہے ۔ اور یہ روایت مرسل ہے ۔ یہ مشہور بات ہے کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا جن کی کنیت ام المساکین تھی ، یہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا تھیں ، فبیلہ انصار میں سے تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہی انتقال کر گئیں ۔ رضی اللہ عنہا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مقصد یہ ہے کہ وہ عورتیں جنہوں نے اپنے نفس کا اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا ۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ { میں ان عورتوں پر غیرت کیا کرتی تھی جو اپنا نفس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیتی تھیں اور مجھے بڑا تعجب معلوم ہوتا تھا کہ عورتیں اپنا نفس ہبہ کرتی ہیں ۔ جب یہ آیت اتری کہ «تُرْجِیْ مَنْ تَشَاءُ مِنْہُنَّ وَ تُـــــْٔوِیْٓ اِلَیْکَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکَ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُہُنَّ وَلَا یَحْزَنَّ وَیَرْضَیْنَ بِمَآ اٰتَیْتَہُنَّ کُلٰہُنَّ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَان اللّٰہُ عَلِــیْمًا حَلِــیْمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:51) ، ’ تو ان میں سے جسے چاہے اس سے نہ کر اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے اور جن سے تو نے یکسوئی کر لی ہے انہیں بھی اگر تم لے آؤ تو تم پر کوئی حرج نہیں ‘ ۔ تو میں نے کہا بس اب تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خوب وسعت و کشادگی کردی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1464) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { کوئی عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ تھی جس نے اپنا نفس آپ کو ہبہ کیا ہو } ۔ یونس بن بکیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ مباح تھا کہ جو عورت اپنے تئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپ دے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے گھر میں رکھ لیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا نہیں ۔ کیونکہ یہ امر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی پر رکھا گیا تھا ۔ یہ بات کسی اور کے لیے جائز نہیں ہاں مہر ادا کر دے تو بیشک جائز ہے “ ۔ چنانچہ بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے بارے میں جنہوں نے اپنا نفس سونپ دیا تھا جب ان کے شوہر انتقال کر گئے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ ان کے خاندان کی اور عورتوں کے مثل انہیں مہر دیا جائے ۔ جس طرح موت مہر کو مقرر کر دیتی ہے اسی طرح صرف دخول سے بھی مہر واجب ہو جاتا ہے ۔ ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم سے مستثنیٰ تھے ۔ ایسی عورتوں کو کچھ دینا آپ پر واجب نہ تھا گو اسے شرف بھی حاصل ہو چکا ہو ۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر مہر کے اور بغیر ولی کے اور بغیر گواہوں کے نکاح کر لینے کا اختیار تھا جیسا کہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے قصے میں ہے ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” کسی عورت کو یہ جائز نہیں کہ اپنے آپ کو بغیر ولی اور بغیر مہر کے کسی کے نکاح میں دیدے ۔ ہاں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ تھا “ ۔ ’ اور مومنوں پر جو ہم نے مقرر کر دیا ہے اسے ہم خوب جانتے ہیں ‘ یعنی وہ چار سے زیادہ بیویاں ایک ساتھ رکھ نہیں سکتے ۔ ہاں ان کے علاوہ لونڈیاں رکھ سکتے ہیں ۔ اور ان کی کوئی تعداد مقرر نہیں ۔ اسی طرح ولی کی مہر کی گواہوں کی بھی شرط ہے ۔ پس امت کا تو یہ حکم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کی پابندیاں نہیں ۔ تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی حرج نہ ہو ۔ اللہ بڑا غفور ورحیم ہے ۔