يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ
اے میرے بیٹے ! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہو ۔ پھر وہ کسی پتھر یا آسمانوں یا زمین ہو اسے بھی اللہ موجود کرے گا ۔ بےشک اللہ باریک بین خبردار ہے
قیامت کے دن اعلیٰ اخلاق کام آئے گا حضرت لقمان کی یہ اور وصیتیں ہیں اور چونکہ یہ سب حکمتوں سے پر ہیں ۔ قرآن انہیں بیان فرما رہا ہے تاکہ لوگ ان پر عمل کریں ۔ فرماتے ہیں کہ ” برائی ، خطا ، ظلم ہے چاہے رائی کے دانے کے برابر بھی ہو پھر وہ خواہ کتنا ہی پوشیدہ اور ڈھکا چھپا کیوں نہ ہو قیامت کے دن اللہ اسے پیش کرے گا میزان میں سب کو رکھا جائے گا اور بدلہ دیا جائے گا نیک کام پر جزا بد پر سزا “ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا» ۱؎ (21-الأنبیاء:47) ، یعنی ’ قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھ کر ہر ایک کو بدلہ دیں گے کوئی ظلم نہ کیا جائے گا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہُ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہُ» ’ ذرے برابر نیکی اور ذرے برابر برائی ہر ایک دیکھ لے گا ‘ ۔ ۱؎ (99-الزلزلۃ:8-7) خواہ وہ نیکی یا بدی کسی مکان میں ، محل میں ، قلعہ میں ، پتھر کے سوراخ میں ، آسمانوں کے کونوں میں ، زمین کی تہہ میں ہو کہیں بھی ہو اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں وہ اسے لا کر پیش کرے گا وہ بڑے باریک علم والا ہے ۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس پر ظاہر ہے اندھیری رات میں چیونٹی جو چل رہی ہو اس کے پاؤں کی آہٹ کا بھی وہ علم رکھتا ہے ۔ بعض نے یہ بھی جائز رکھا ہے کہ «اِنَّہَا» میں ضمیر شان کی اور قصہ کی ہے اور اس بناء پر انہوں نے «مِثْقَالُ» کی لام کا پیش پڑھنا بھی جائز رکھا ہے لیکن پہلی بات ہی زیادہ اچھی ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ «صَخْرَۃٌ» سے مراد وہ پتھر ہے جو ساتویں آسمان اور زمین کے نیچے ہیں ۔ اس کی بعض سندیں بھی سدی رحمہ اللہ نے ذکر کی ہیں اگر صحیح ثابت ہوجائیں ۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے یہ مروی تو ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بہت ممکن ہے کہ یہ بھی بنی اسرائیل سے منقول ہوں لیکن ان کی کتابوں کی کسی بات کو ہم نہ سچی مان سکیں نہ جھٹلاسکیں ۔ بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بقدر رائی کے دانہ کے کوئی عمل حقیر ہو اور ایسا پوشیدہ ہو کہ کسی پتھر کے اندر ہو ۔ جیسے مسند احمد کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اگر تم میں سے کوئی شخص کوئی علم عمل کرے کسی بے سوراخ کے پتھر کے اندر جس کا نہ کوئی دروازہ ہو نہ کھڑکی ہو نہ سوراخ ہو تاہم اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر کر دے گا خواہ کچھ ہی عمل ہو نیک ہو یا بد } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:28/3:ضعیف) پھر فرماتے ہیں ” بیٹے نماز کا خیال رکھنا ۔ اس کے فرائض ، اس کے واجبات ، ارکان اوقات وغیرہ کی پوری حفاظت کرنا ۔ اپنی طاقت کے مطابق پوری کوشش کے ساتھ اللہ کی باتوں کی تبلیغ اپنوں ، غیروں میں کرتے رہنا بھلی باتیں کرنے اور بری باتوں سے بچنے کے لیے ہر ایک سے کہنا “ ۔ اور چونکہ نیکی کا حکم یعنی بدی سے روکنا جو عموماً لوگوں کو کڑوی لگتی ہے ۔ اور حق گو شخص سے لوگ دشمنی رکھتے ہیں اس لیے ساتھ ہی فرمایا کہ ” لوگوں سے جو ایذاء اور مصیبت پہنچے اس پر صبر کرنا درحقیقت اللہ کی راہ میں ننگی شمشیر رہنا اور حق پر مصیبتیں جھیلتے ہوئے پست ہمت نہ ہونا یہ بڑا بھاری اور جوانمردی کا کام ہے “ ۔ پھر فرماتے ہیں ” اپنا منہ لوگوں سے نہ موڑ انہیں حقیر سمجھ کریا اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر لوگوں سے تکبر نہ کر ۔ بلکہ نرمی برت خوش خلقی سے پیش آ ۔ خندہ پیشانی سے بات کر “ ۔ حدیث شریف میں ہے کہ { کسی مسلمان بھائی سے تو کشادہ پیشانی سے ہنس مکھ ہو کر ملے یہ بھی تیری بڑی نیکی ہے ۔ تہبند اور پاجامے کو ٹخنے سے نیچا نہ کر یہ تکبرو غرور ہے اور تکبر اور غرور اللہ کو ناپسند ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4084،قال الشیخ الألبانی:صحیح) حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو تکبر نہ کرنے کی وصیت کی ہے کہ ” ایسا نہ ہو کہ اللہ کے بندوں کو حقیر سمجھ کر تو ان سے منہ موڑ لے اور مسکنیوں سے بات کرنے سے بھی شرمائے “ ۔ منہ موڑے ہوئے باتیں کرنا بھی غرور میں داخل ہے ۔ باچھیں پھاڑ کر لہجہ بدل کر حاکمانہ انداز کے ساتھ گھمنڈ بھرے الفاظ سے بات چیت بھی ممنوع ہے ۔ ” صعر “ ایک بیماری ہے جو اونٹوں کی گردن میں ظاہر ہوتی ہے یا سر میں اور اس سے گردن ٹیڑھی ہو جاتی ہے ، پس متکبر شخص کو اسی ٹیڑھے منہ والے شخص سے ملا دیا گیا ۔ عرب عموماً تکبر کے موقعہ پر صعر کا استعمال کرتے ہیں اور یہ استعمال ان کے شعروں میں بھی موجود ہے ۔ زمین پر تن کر ، اکڑ کر ، اترا کر ، غرور وتکبر سے نہ چلو یہ چال اللہ کو ناپسند ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند رکھتا ہے جو خود بین متکبر سرکش اور فخر و غرور کرنے والے ہوں اور آیت میں ہے «وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:37) ، یعنی ’ اکڑ کر زمین پر نہ چلو نہ تو تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ پہاڑوں کی لمبائی کو پہنچ سکتے ہو ‘ ۔ اس آیت کی تفسیر بھی اس کی جگہ گزر چکی ہے ۔ { حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مرتبہ تکبر کا ذکر آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی مذمت فرمائی اور فرمایا کہ { ایسے خود پسند مغرور لوگوں سے اللہ غصہ ہوتا ہے } ۔ اس پر ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جب کپڑے دھوتا ہوں اور خوب سفید ہو جاتے ہیں تو مجھے بہت اچھے لگتے ہیں میں ان سے خوش ہوتا ہوں ۔ اسی طرح جوتے میں تسمہ بھلالگتا ہے ۔ کوڑے کا خوبصورت غلاف بھلا معلوم ہوتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ تکبر نہیں ہے تکبر اس کا نام ہے کہ تو حق کو حقیر سمجھے اور لوگوں کو ذلیل خیال کرے } } ۔ (طبرانی کبیر:1317:اسنادہ ضعیف ولہ شواہد) یہ روایت اور طریق سے بہت لمبی مروی ہے اور اس میں سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ کے انتقال اور ان کی وصیت کا ذکر بھی ہے ۔ ” اور میانہ روی کی چال چلا کر نہ بہت آہستہ ، خراماں خراماں نہ بہت جلدی لمبے ڈگ بھربھر کے ۔ کلام میں مبالغہ نہ کرے بے فائدہ چیخ چلا نہیں ۔ بدترین آواز گدھے کی ہے ۔ جو پوری طاقت لگا کر بےسود چلاتا ہے ۔ باوجودیکہ وہ بھی اللہ کے سامنے اپنی عاجزی ظاہر کرتا ہے “ ۔ پس یہ بھی بری مثال دے کر سمجھا دیا کہ بلاوجہ چیخنا ڈانٹ ڈپٹ کرنا حرام ہے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { بری مثالوں کے لائق ہم نہیں ۔ اپنی دے دی ہوئی چیز واپس لینے والا ایسا ہے جیسے کتا جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2621) نسائی میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { جب مرغ کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو اور جب گدھے کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرو ۔ اس لیے کہ وہ شیطان کو دیکھتا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3303) ایک روایت میں ہے { رات کو } ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:5103،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ وصیتیں لقمان حکیم کی نہایت ہی نفع بخش ہیں ۔ قرآن حکیم نے اسی لیے بیان فرمائی ہیں ۔ آپ سے اور بھی بہت حکیمانہ قول اور وعظ ونصیحت کے کلمات مروی ہیں ۔ بطور نمونہ کے اور دستور کے ہم بھی تھوڑے سے بیان کرتے ہیں ۔ مسند احمد میں بزبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لقمان حکیم کا ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ { اللہ کو جب کوئی چیز سونپ دی جائے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی حفاظت کرتا ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:87/2:صحیح) اور حدیث میں آپ کا یہ قول بھی مروی ہے کہ { تصنع سے بچ یہ رات کے وقت ڈراؤنی چیز ہے اور دن کو مذمت وبرائی والی چیز ہے } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:411/2:ضعیف) آپ نے اپنے بیٹے سے یہ بھی فرمایا تھا کہ ” حکمت سے مسکین لوگ بادشاہ بن جاتے ہیں “ ۔ آپ کا فرمان ہے کہ ” جب کسی مجلس میں پہنچو پہلے اسلامی طریق کے مطابق سلام کرو پھر مجلس کے ایک طرف بیٹھ جاؤ ۔ دوسرے نہ بولیں تو تم بھی خاموش رہو ۔ اگر وہ ذکر اللہ کریں تو تم ان میں سب سے پہلے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کرو ۔ اور اگر وہ گپ شپ کریں تو تم اس مجلس کو چھوڑ دو “ ۔ مروی ہے کہ آپ اپنے بچے کو نصیحت کرنے کے لیے جب بیٹھے تو رائی کی بھری ہوئی ایک تھیلی اپنے پاس رکھ لی تھی اور ہر ہر نصیحت کے بعد ایک دانہ اس میں سے نکال لیتے یہاں تک کہ تھیلی خالی ہو گئی تو آپ نے فرمایا ” بچے اگر اتنی نصیحت کسی پہاڑ کو کرتا تو وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا “ ۔ چنانچہ آپ کے صاحبزادے کا بھی یہی حال ہوا ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { حبشیوں کودوست رکھا کر ان میں سے تین شخص اہل جنت کے سردار ہیں لقمان حکیم رحمہ اللہ ، نجاشی رحمہ اللہ اور بلال موذن رضی اللہ عنہ } } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:11482:ضعیف و جدا) تواضع اور فروتنی کا بیان لقمان رحمہ اللہ نے اپنے بچے کو اس کی وصیت کی تھی اور ابن ابی الدنیا نے اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے ۔ ہم اس میں سے اہم باتیں یہاں ذکر کر دیتے ہیں ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { بہت سے پراگندہ بالوں والے میلے کچیلے کپڑوں والے جو کسی بڑے گھر تک نہیں پہنچ سکتے اللہ کے ہاں اتنے بڑے مرتبہ والے ہیں کہ اگر وہ اللہ پر کوئی قسم لگا بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ اسے بھی پوری فرما دے } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3854،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے { سیدنا براء بن مالک رضی اللہ عنہ ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم: 291/3: صحیح) ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتے دیکھ کر دریافت فرمایا تو جواب ملا کہ ” صاحب قبر صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث میں نے سنی ہے جسے یاد کر کے رورہا ہوں ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے { تھوڑی سی ریاکاری بھی شرک ہے اللہ تعالیٰ انہیں دوست رکھتا ہے جو متقی ہیں جو لوگوں میں چھپے چھپائے ہیں جو کسی گنتی میں نہیں آتے اگر وہ کسی مجمع میں نہ ہوں تو کوئی ان کا پرسان حال نہیں اگر آ جائیں تو کوئی آؤ بھگت نہیں لیکن ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں وہ ہر ایک غبار آلود اندھیرے سے بچ کرنور حاصل کر لیتے ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3989،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { یہ میلے کچیلے کپڑوں والے جوذلیل گنے جاتے ہیں اللہ کے ہاں ایسے مقرب ہیں کہ اگر اللہ پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ پوری کر دے گو انہیں اللہ نے دنیا نہیں دی لیکن ان کی زبان سے پوری جنت کا سوال بھی نکل جائے تو اللہ پورا کر لیتا ہے } ۔ ۱؎ (مسند بزار:3628:ضعیف دون الجملۃ) { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { میری امت میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر آ کر وہ لوگ ایک دینار ایک درہم بلکہ ایک فلوس بھی مانگیں تو تم نہ دو لیکن اللہ کے ہاں وہ ایسے پیارے ہیں کہ اگر اللہ سے جنت کی جنت مانگیں تو پروردگار دیدے ہاں دنیا نہ تو انہیں دیتا ہے نہ روکتا ہے اس لیے کہ یہ کوئی قابل قدر چیز نہیں ۔ یہ میلی کچیلی دو چادروں میں رہتے ہیں اگر کسی موقعہ پر قسم کھا بیٹھیں تو جو قسم انہوں نے کھائی ہو اللہ پوری کرتا ہے } } ۔ ۱؎ (ابن ابی الدنیا فی الاولیاء:9:مرسل و ضعیف) { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { جنت کے بادشاہ وہ لوگ ہیں جو پراگندہ اور بکھرے ہوئے بالوں والے ہیں غبار آلود اور گرد سے اٹے ہوئے وہ امیروں کے گھر جانا چاہیں تو انہیں اجازت نہیں ملتی اگر کسی بڑے گھرانے میں نکاح کی مانگ کر ڈالیں تو وہاں کی بیٹی نہیں ملتی ۔ ان مسکینوں سے انصاف کے برتاؤ نہیں برتے جاتے ۔ ان کی حاجتیں اور ان کی امنگیں اور مرادیں پوری ہونے سے پہلے ہی خود ہی فوت ہو جاتی ہیں اور آرزوئیں دل کی دل میں ہی رہ جاتی ہیں انہیں قیامت کے دن اس قدر نور ملے گا کہ اگر وہ تقسیم کیا جائے تو تمام دنیا کے لیے کافی ہو جائے } } ۔ ۱؎ (بیہقی فی شعب الایمان:10486:منقطع و ضعیف) عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے شعروں میں ہے کہ بہت سے وہ لوگ جو دنیا میں حقیر وذلیل سمجھے جاتے ہیں کل قیامت کے دن تخت وتاراج والے ملک ومنال والے عزت وجلال والے بنے ہوئے ہونگے ۔ باغات میں ، نہروں میں ، نعمتوں میں ، راحتوں میں ، مشغول ہونگے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { جناب باری کا ارشاد ہے ’ سب سے زیادہ میرا پسندیدہ ولی وہ ہے جو مومن ہو ، کم مال والا ، کم عال وعیال والا ، غازی ، عبادت واطاعت گزار ، پوشیدہ واعلانیہ مطیع ہو ، لوگوں میں اس کی عزت اور اس کا وقار نہ ہو ، اس کی جانب انگلیاں نہ اٹھتی ہوں ، اور وہ اس پر صابر ہو ‘ } ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ جھاڑ کر فرمایا { اس کی موت جلدی آ جاتی ہے اس کی میراث بہت کم ہوتی ہے اس کی رونے والیاں تھوڑی ہوتی ہیں } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4117،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) فرماتے ہیں اللہ کے سب سے زیادہ محبوب بندے غرباء ہیں جو اپنے دین کو لیے پھرتے ہیں جہاں دین کے کمزور ہونے کا خطرہ ہوتا ہے وہاں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں یہ قیامت کے دن عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جمع ہونگے ۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندے سے فرمائے گا ’ کیا میں نے تجھ پر انعام واکرام نہیں فرمایا ؟ کیا میں نے تجھے دیا نہیں ؟ کیا میں نے تیرا جسم نہیں ڈھانپا ؟ کیا میں نے تمہیں یہ نہیں دیا ؟ کیا وہ نہیں دیا ؟ کیا لوگوں میں تجھے عزت نہیں دی تھی ؟ ‘ وغیرہ تو جہاں تک ہو سکے ان سوالوں کے جواب دینے کا موقعہ کم ملے اچھا ہے ۔ لوگوں کی تعریفوں سے کیا فائدہ اور مذمت کریں تو کیا نقصان ہو گا ۔ ہمارے نزدیک تو وہ شخص زیادہ اچھا ہے جسے لوگ برا کہتے ہوں اور وہ اللہ کے نزدیک اچھا ہو “ ۔ ابن محیریز رحمہ اللہ تو دعا کرتے تھے کہ ” اللہ میری شہرت نہ ہو “ ۔ خلیل بن احمد رحمہ اللہ اپنی دعا میں کہتے تھے ” اللہ مجھے اپنی نگاہوں میں تو بلندی عطا فرما اور خود میری نظر میں مجھے بہت حقیر کر دے اور لوگوں کی نگاہوں میں مجھے درمیانہ درجہ کا رکھ “ ، پھر شہرت کا باب باندھ کر امام صاحب اس حدیث کو لائے ہیں { انسان کو یہی برائی کافی ہے کہ لوگ اس کی دینداری یادنیاداری کی شہرت دینے لگیں اور اس کی طرف انگلیاں اٹھنے لگیں اشارے ہونے لگیں ۔ پس اسی میں آ کر بہت سے لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں مگر جنہیں اللہ بچالے ۔ سنو! اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمالوں کو دیکھتا ہے } ۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت مرسلاً مروی ہے جب آپ رضی اللہ عنہ نے یہ روایت بیان کی تو کسی نے کہا آپ رضی اللہ عنہ کی طرف بھی انگلیاں اٹھتی ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” سمجھے نہیں مراد انگلیاں اٹھنے سے دینی بدعت یا دنیوی فسق و فجور ہے “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ” شہرت حاصل کرنا نہ چاہو ۔ اپنے آپ کو اونچا نہ کرو کہ لوگوں میں تذکرے ہونے لگیں علم حاصل کرو لیکن چھپاؤ چپ رہو تاکہ سلامت رہو ، نیکوں کو خوش رکھو بدکاروں سے تصرف رکھو “ ۔ ابراہیم بن ادھم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” شہرت کا چاہنے والا اللہ کا ولی نہیں ہوتا “ ۔ ایوب رحمہ اللہ کا فرمان ہے ” جسے اللہ دوست بنالیتا ہے وہ تو لوگوں سے اپنا درجہ چھپاتا پھرتا ہے “ ۔ محمد بن علاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اللہ کے دوست لوگ اپنے تئیں ظاہر نہیں کرتے “ ۔ سماک بن سلمہ رحمہ اللہ کا قول ہے ” عام لوگوں کے میل جول سے اور احباب کی زیادتی سے پرہیز کرو “ ۔ ابان بن عثمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اگر دین کو سالم رکھنا چاہتے ہو تو لوگوں سے کم جان پہچان رکھو “ ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ کا قاعدہ تھا جب دیکھتے کہ ان کی مجلس میں تین سے زیادہ لوگ جمع ہو گئے تو انہیں چھوڑ کر خود چل دیتے ۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے جب اپنے ساتھ بھیڑ دیکھی تو فرمانے لگے ” طمع کی مکھیاں اور آگ کے پروانے جمع ہوگئے “ ۔ سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کو لوگ گھیرے کھڑے تھے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کوڑا تانا اور فرمایا ” اس میں تابع کے لیے ذلت اور متبوع کے لیے فتنہ ہے “ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ جب لوگ چلنے لگے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ” اگر تم پر میرا باطن ظاہر ہو جائے تو تم میں سے دو بھی میرے ساتھ چلنا پسند نہ کریں “ ۔ حماد بن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں ” جب ہم کسی مجلس کے پاس سے گزرتے اور ہمارے ساتھ ایوب رحمہ اللہ ہوتے تو لوگ سلام کرتے اور وہ سختی سے جواب دیتے “ ۔ پس یہ ایک نعمت تھی ۔ آپ لمبی قمیض پہنتے اس پر لوگوں نے کہا تو آپ نے جواب دیا کہ اگلے زمانے میں شہرت کی چیز تھی ۔ لیکن یہ شہرت اس کو اونچا کرنے میں ہے ۔ ایک مرتبہ آپ نے اپنی ٹوپیاں مسنون رنگ کی رنگوائیں اور کچھ دنوں تک پہن کر اتاردی اور فرمایا ” میں نے دیکھا کہ عام لوگ انہیں نہیں پہنتے “ ۔ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” نہ تو ایسا لباس پہنو کہ لوگوں کی انگلیاں اٹھیں نہ اتنا گھٹیا پہنو کہ لوگ حقارت سے دیکھیں “ ۔ ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” عام سلف کا یہی معمول تھا کہ نہ بہت بڑھیا کپڑا پہنتے تھے نہ بالکل گھٹیا “ ۔ ابوقلابہ رحمہ اللہ کے پاس ایک شخص بہت ہی بہترین اور شہرت کا لباس پہنے ہوئے آیا تو آپ نے فرمایا ” اس آواز دینے والے گدھے سے بچو “ ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” بعض لوگوں نے دلوں میں تو تکبر بھر رکھا ہے اور ظاہر لباس میں تواضع کر رکھی ہے گویا چادر ایک بھاری ہتھوڑا ہے “ ۔ موسیٰ علیہ السلام کا مقولہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا ” میرے سامنے تو درویشوں کی پوشاک میں آئے حالانکہ تمہارے دل بھیڑیوں جیسے ہیں ۔ سنو لباس چاہے بادشاہوں جیسا پہنو مگر دل خوف اللہ سے نرم رکھو “ ۔ اچھے اخلاق کا بیان حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر اخلاق والے تھے ۱؎ (صحیح مسلم:5970) { آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ کونسامومن بہتر ہے فرمایا { سب سے اچھے اخلاق والا } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4259،قال الشیخ الألبانی:حسن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { باوجود کم اعمال کے صرف اچھے اخلاق کی وجہ سے انسان بڑے بڑے درجے اور جنت کی اعلی منازل حاصل کر لیتا ہے ۔ اور باوجود بہت ساری نیکیوں کے صرف اخلاق کی برائی کی وجہ سے جہنم کے نیچے کے طبقے میں چلا جاتا ہے } ۔ ۱؎ (ابن ابی الدنیا:168:ضعیف) فرماتے ہیں { اچھے اخلاق ہی میں دنیا آخرت کی بھلائی ہے } ۔ ۱؎ (ابن ابی الدنیا:169:ضعیف) فرماتے ہیں { انسان اپنی خوش اخلاقی کے باعث راتوں کو قیام کرنے والے اور دنوں کو روزے رکھنے والوں کے درجوں کو پالیتا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4898،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ دخول جنت کا موجب عام طور سے کیا ہے ؟ فرمایا : { اللہ کا ڈر اور اخلاق کی اچھائی } ۔ پوچھا گیا عام طور سے جہنم میں کون سی چیز لے جاتی ہے ؟ فرمایا : { دو سوراخ دار چیزیں یعنی منہ اور شرمگاہ } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2004،قال الشیخ الألبانی:حسن) { ایک مرتبہ چند اعراب کے اس سوال پر کہ انسان کو سب سے بہتر عطیہ کیا ملا ہے ؟ فرمایا : { کہ حسن خلق } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:278/4:صحیح) فرمایا کہ { نیکی کی ترازو میں اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی چیز اور کوئی نہیں } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2202،قال الشیخ الألبانی:صحیح) فرماتے ہیں { تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق والا ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3559) فرماتے ہیں { جس طرح مجاہد کو جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے صبح شام اجر ملتا ہے اسی طرح اچھے اخلاق پر بھی اللہ ثواب عطا فرماتا ہے } ۔ ۱؎ (ابن ابی الدنیا:176:ضعیف) ارشاد ہے { تم میں مجھے سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ قریب وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق والا ہو ۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ بغض ونفرت کے قابل اور مجھ سے سب سے دور جنت میں وہ ہو گا جو بدخلق ، بدگو ، بدکلام ، بدزبان ہوگا } ۔ فرماتے ہیں { کامل ایماندار اچھے اخلاق والے ہیں جو ہر ایک سے سلوک ومحبت سے ملیں جلیں } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2018،قال الشیخ الألبانی:حسن) ارشاد ہے { جس کی پیدائش اور اخلاق اچھے ہیں اسے اللہ تعالیٰ جہنم کا لقمہ نہیں بنائے گا } ۔ ارشاد ہے کہ { دو خصلیتں مومن میں جمع نہیں ہو سکتی بخل اور بداخلاقی } ۔ ۱؎ (ابن ابی الدنیا:180:ضعیف و مرسل) فرماتے ہیں { بدخلقی سے زیادہ بڑا کوئی گناہ نہیں ، اس لیے کہ بداخلاقی سے ایک سے ایک بڑے گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1962،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے { اللہ کے نزدیک بد اخلاقی سے بڑا کوئی گناہ نہیں ۔ اچھے اخلاق سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ بداخلاقیاں نیک اعمالوں کو غارت کر دیتی ہیں ۔ جیسے شہد کو سرکہ خراب کر دیتا ہے } ۔ ۱؎ (ابن ابی الدنیا:183:ضعیف و مرسل) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { غلام خریدنے سے غلام نہیں بڑھتے البتہ خوش اخلاقی سے لوگ گرویدہ اور جان نثا رہو جاتے ہیں } } ۔ ۱؎ (ابن ابی الدنیا:184:ضعیف) امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” اچھا خلق دین کی مدد کرتا ہے “ ۔ تکبر کی مذمت کا بیان { حضور صلی اللہ علیہ السلام فرماتے ہیں { وہ جنت میں نہ جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو ، اور وہ جہنمی نہیں جس کے دل میں رائی کے برابر ایمان ہو } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:39) فرماتے ہیں کہ { جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر تکبر ہے وہ اوندھے منہ جہنم میں جائے گا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:215/2:صحیح لغیرہ) ارشاد ہے کہ { انسان اپنے غرور اور خود پسندی میں بڑھتے بڑھتے اللہ کے ہاں جباروں میں لکھ دیا جاتا ہے ، پھر سرکشوں کے عذاب میں پھنس جاتا ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:215/2:صحیح) امام مالک بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ایک دن سلیمان بن داؤد علیہ السلام اپنے تخت پر بیٹے تھے آپ علیہ السلام کی دربار میں اس وقت دو لاکھ انسان تھے اور دو لاکھ جن تھے ۔ آپ علیہ السلام کو آسمان تک پہنچایا گیا یہاں تک کہ فرشتوں کی تسبیح کی آواز کان میں آنے لگی ۔ اور پھر زمین تک لایا گیا یہاں تک کہ سمندر کے پانی سے آپ علیہ السلام کے قدم بھیگ گئے ۔ پھر ہاتف غیب نے ندادی کہ اگر اس کے دل میں ایک دانے کے برابر بھی تکبر ہوتا تو جتنا اونچا گیا تھا اس سے زیادہ نیچے دھنسادیا جاتا “ ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں انسان کی ابتدائی پیدائش کا بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ” یہ دو شخصوں کی پیشاب گاہ سے نکلتا ہے “ ۔ اس طرح اسے بیان فرمایا کہ سننے والے کراہت کرنے لگے ۔ امام شعمی رحمہ اللہ کا قول ہے ” جس نے دو شخصوں کو قتل کر دیا وہ بڑا ہی سرکش اور جبار ہے پھر آپ رحمہ اللہ نے یہ آیت پڑھی «فَلَمَّا أَنْ أَرَادَ أَن یَبْطِشَ بِالَّذِی ہُوَ عَدُوٌّ لَّہُمَا قَالَ یَا مُوسَیٰ أَتُرِیدُ أَن تَقْتُلَنِی کَمَا قَتَلْتَ نَفْسًا بِالْأَمْسِ إِن تُرِیدُ إِلَّا أَن تَکُونَ جَبَّارًا فِی الْأَرْضِ وَمَا تُرِیدُ أَن تَکُونَ مِنَ الْمُصْلِحِینَ» ۱؎ (28-سورۃالقص:19) ’ کیا تو مجھے قتل کرنا چاہتا ہے ؟ جیسے کہ تو نے کل ایک شخص کو قتل کیا ہے ۔ تیرا ارادہ تو دنیا میں سرکش اور جبار بن کر رہنے کا معلوم ہوتا ہے ‘ ۔ حضرت حسن رحمہ اللہ کا مقولہ ہے ” وہ انسان جو ہر دن میں دو مرتبہ اپنا پاخانہ اپنے ہاتھ سے دھوتا ہے وہ کس بنا پر تکبر کرتا ہے اور اس کا وصف اپنے میں پیدا کرنا چاہتا ہے جس نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور اپنے قبضے میں رکھا ہے “ ۔ ضحاک بن سفیان رحمہ اللہ سے دنیا کی مثال اس چیز سے بھی مروی ہے جو انسان سے نکلتی ہے ۔ امام محمد بن حسین بن علی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جس دل میں جتنا تکبر اور گھمنڈ ہوتا ہے اتنی ہی عقل اس کی کم ہو جاتی ہے “ ۔ یونس بن عبید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” سجدہ کرنے کے ساتھ تکبر اور توحید کے ساتھ نفاق نہیں ہوا کرتا “ ۔ بنی امیہ مارمار کر اپنی اولاد کو اکڑا کر چلنا سکھاتے تھے ۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو آپ کی خلافت سے پہلے ایک مرتبہ اٹھلاتی ہوئی چال چلتے ہوئے دیکھ کر طاؤس رحمہ اللہ نے ان کے پہلو میں ایک ٹھونکا مارا اور فرمایا ” یہ چال اس کی جس کے پیٹ میں پاخانہ بھرا ہوا ہے ؟ “ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بہت شرمندہ ہوئے اور کہنے لگے ” معاف فرمائیے ہمیں مارمار کر اس چال کی عادت ڈلوائی گئی ہے “ ۔ فخر و گھمنڈ کی مذمت کا بیان { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو شخص فخر و غرور سے اپنا کپڑا نیچے لٹکا کر گھسیٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف رحمت سے نہ دیکھے گا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5789) فرماتے ہیں { { اس کی طرف اللہ قیامت کے دن نظر نہ ڈالے گا جو اپنا تہبند لٹکائے } ۔ ایک شخص دو عمدہ چادریں اوڑھے دل میں غرور لیے اکڑتا ہوا جا رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسادیا قیامت تک وہ دھنستا ہوا چلا جائے گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3485)