سورة القصص - آیت 58

وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَرْيَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَا ۖ فَتِلْكَ مَسَاكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَن مِّن بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلِيلًا ۖ وَكُنَّا نَحْنُ الْوَارِثِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور ہم نے ایسی بہت سی بستیاں کھپار یعنی ہلاک کرادیں جو اپنی معیشت میں اتراچکی تھیں سو یہ ان کے گھر پڑے ہیں جو ان کے ہلاک ہوئے پیچھے شاذو نادر ہی آباد ہوئے اور آخر ہم ہی وارث ہوئے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

اہل مکہ کو تنبیہہ اہل مکہ کو ہوشیار کیا جاتا ہے کہ جو اللہ کے بہت سی نعمتیں حاصل کر کے اترا رہے تھے اور سرکشی اور بڑائی کرتے تھے اور اللہ سے کفر کرتے تھے نبی علیہ السلام کا انکار کرتے تھے اور اللہ کی روزیاں کھاتے تھے اور اس کی نمک حرامی کرتے تھے انہیں اللہ تعالیٰ نے اس طرح تباہ و برباد کر دیا کہ آج ان کا نام لینے والا نہیں رہا ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مٰطْمَیِٕنَّۃً یَّاْتِیْہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَہَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ» (16-النحل:112-113) ، یہاں فرماتا ہے کہ ’ ان کی اجڑی ہوئی بستیاں اب تک اجڑی پڑی ہیں ۔ کچھ یونہی سی آبادی اگرچہ ہو گئی ہو لیکن دیکھو ان کے کھنڈرات سے آج تک وحشت برس رہی ہے ہم ہی ان کے مالک رہ گئے ہیں ‘ ۔ کعب رحمہ اللہ (تابعی) کا قول ہے کہ ” الو سے سلیمان علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ ” تو کھیتی اناج کیوں نہیں کھاتا ؟ “ اس نے کہا کہ اس لیے کہ اسی کے باعث آدم علیہ السلام جنت سے نکالے گئے پوچھا ” پانی کیوں نہیں پیتا ؟ “ کہا اس لیے کہ قوم نوح علیہ السلام اسی میں ڈبودی گئی ۔ پوچھا ” ویرانے میں کیوں رہتا ہے ؟ “ کہا اس لیے کہ وہ اللہ کی میراث ہے ۔ پھر کعب رحمہ اللہ نے آیت «وَکُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ» (28-القص:58) پڑھا ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے عدل وانصاف کو بیان فرما رہا ہے کہ ’ وہ کسی کے ظلم سے ہلاک نہیں کرتا پہلے ان پر اپنی حجت ختم کرتا ہے اور ان کا عذر دور کرتا ہے ۔ رسولوں کو بھیج کر اپنا کلام ان تک پہنچاتا ہے ‘ ۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت عام تھی آپ ام القریٰ میں مبعوث ہوئے تھے ۔ اور تمام عرب وعجم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے جیسے فرمان ہے آیت «لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَیٰ وَمَنْ حَوْلَہَا» ۱؎ (42-الشوری:7) ’ تاکہ تو مکہ والوں کو اور دوسرے شہر والوں کو ڈرادے ‘ اور فرمایا آیت «قُلْ یَا أَیٰہَا النَّاسُ إِنِّی رَ‌سُولُ اللہِ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا الَّذِی لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ» ۱؎ (7-الأعراف:158) ’ کہہ دے کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ‘ اور آیت میں ہے «لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ» ۱؎ (6-الأنعام:19) ’ تاکہ اس قرآن سے میں تمہیں بھی ڈرادوں اور ہر اس شخص کو جس تک یہ قرآن پہنچے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہٗ» ۱؎ (11-ھود:17) ’ اس قرآن کے ساتھ دنیا والوں میں سے جو بھی کفر کریں اس کے وعدے کی جگہ جہنم ہے ‘ ۔ اور جگہ اللہ کا فرمان ہے آیت «وَاِنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا نَحْنُ مُہْلِکُوْہَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ اَوْ مُعَذِّبُوْہَا عَذَابًا شَدِیْدًا کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:58) ، یعنی ’ تمام بستیوں کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک کرنے والے ہیں یا سخت عذاب کرنے والے ہیں ‘ ۔ پس خبر دی کہ قیامت سے پہلے وہ سب بستیوں کو برباد کر دے گا ۔ اور آیت میں ہے «وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتَّیٰ نَبْعَثَ رَسُولًا» ۱؎ (17-الإسراء:15) کہ ’ ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے ‘ ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو عام کر دیا اور تمام جہاں کے لیے کر دیا اور مکہ میں جو کہ تمام دنیا کا مرکز ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر ساری دنیا پر اپنی حجت ختم کر دی ۔ بخاری و مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے کہ { میں تمام سیاہ سفید کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:521) اسی لیے نبوت ورسالت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے قیامت تک نہ کوئی نبی آئے گا نہ رسول ۔ کہا گیا کہ مراد «اُمٰ الْقُرَیٰ» سے اصل اور بڑا قریہ ہے ۔