أَلَمْ تَرَ إِلَىٰ رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًا
کیا تونے اپنے رب کی طرف نہیں دیکھا کہ اس نے کیونکر سایہ کو پھیلایا ہے اور اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا رکھتا ۔ پھر ہم نے سورج کو اس کا راہ بتلانے والا مقرر کیا۔ ( ف 2)
اگر وہ چاہے تو رات دن نہ بدلے اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی قدرت پر دلیلیں بیان ہو رہی ہے کہ مختلف اور متضاد چیزوں کو وہ پیدا کر رہا ہے ۔ سائے کو وہ بڑھاتا ہے ، کہتے ہیں کہ یہ وقت صبح صادق سے لے کر سورج نکلنے تک کا ہے ۔ اگر وہ چاہتا تو اسے ایک ہی حالت پر رکھ دیتا ۔ جیسے فرمان ہے کہ اگر وہ رات ہی رات رکھے تو کوئی دن نہیں کر سکتا اور اگر دن ہی دن رکھے تو کوئی رات نہیں لا سکتا ۔ اگر سورج نہ نکلتا تو سائے کا حال ہی معلوم نہ ہوتا ۔ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے ۔ سائے کے پیچھے دھوپ ، دھوپ کے پیچھے سایہ ، یہ بھی قدرت کا انتظام ہے ۔ پھر سہج سہج ہم اسے یعنی سائے کو یا سورج کو اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں ۔ ایک گھٹتا جاتا ہے تو دوسرا بڑھتا جاتا ہے اور یہ انقلاب سرعت سے عمل میں آتا ہے ۔ کوئی جگہ سایہ دار باقی نہیں رہتی ۔ صرف گھروں کے چھپڑوں کے اور درختوں کے نیچے سایہ رہ جاتا ہے اور ان کے بھی اوپر دھوپ کھلی ہوئی ہوتی ہے ۔ آہستہ آہستہ تھوڑا تھوڑا کر کے ہم اسے اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں ۔ اسی نے رات کو تمہارے لیے لباس بنایا ہے کہ وہ تمہارے وجود پر چھا جاتی ہے اور اسے ڈھانپ لیتی ہے جیسے فرمان ہے : قسم ہے رات کی جبکہ ڈھانپ لے ، اسی نے نیند کو سبب راحت و سکون بنایا ہے کہ اس وقت حرکت موقوف ہو جاتی ہے ۔ اور دن بھر کے کام کاج سے جو تھکن چڑھ گئی تھی ، وہ اس آرام سے اتر جاتی ہے ۔ بدن کو اور روح کو راحت حاصل ہو جاتی ہے ۔ پھر دن کو اٹھ کھڑے ہوتے ہو ، پھیل جاتے ہو ۔ اور روزی کی تلاش میں لگ جاتے ہو ۔ جیسے فرمان ہے کہ ’ اس نے اپنی رحمت سے رات دن مقرر کر دیا ہے کہ تم سکون و آرام بھی حاصل کر لو اور اپنی روزیاں بھی تلاش کرو ۔ ‘ ۱؎ (28-القصص:73)