سورة الفرقان - آیت 15

قُلْ أَذَٰلِكَ خَيْرٌ أَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۚ كَانَتْ لَهُمْ جَزَاءً وَمَصِيرًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ یہ دوزخ بہتر ہے یا ہمیشہ کا باغ جن کا وعدہ متقیوں کے لئے ہے کہ ان ہی کا بدلہ اور آخری ٹھکانا ہوگا ۔ (ف ١) ۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

ابدی لذتیں اور مسرتیں اوپر بیان فرمایا ان بدکاروں کا جو ذلت و خواری کے ساتھ اوندھے منہ جہنم کی طرف گھسیٹے جائیں گے اور سر کے بل وہاں پھینک دئیے جائیں گے ۔ بندھے بندھائے ہوں گے اور تنگ و تاریک جگہ ہوں گے ، نہ چھوٹ سکیں ، نہ حرکت کر سکیں ، نہ بھاگ سکیں ، نہ نکل سکیں ۔ پھر فرماتا ہے : بتلاؤ یہ اچھے ہیں یا وہ ؟ جو دنیا میں گناہوں سے بچتے رہے ، اللہ کا ڈر دل میں رکھتے رہے اور آج اس کے بدلے اپنے اصلی ٹھکانے پہنچ گئے یعنی جنت میں جہاں من مانی نعمتیں ، ابدی لذتیں ، دائمی مسرتیں ان کے لیے موجود ہیں ۔ عمدہ کھانے ، اچھے بچھونے ، بہترین سواریاں ، پرتکلف لباس ، بہتر سے بہتر مکانات ، بنی سنوری پاکیزہ حوریں ، راحت افزا منظر ، ان کے لیے مہیا ہیں ، جہاں تک کسی کی نگاہیں تو کہاں خیالات بھی نہیں پہنچ سکتے ۔ نہ ان راحتوں کے بیانات کسی کان میں پہنچے ۔ پھر ان کے کم ہو جانے ، ختم ہو جانے کا بھی کوئی خطرہ نہیں اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں نہ ، وہ نعمتیں کم ہوں ۔ لازوال ، بہترین زندگی ، ابدی رحمت ، دوامی کی دولت انہیں مل گئی اور ان کی ہو گئی ۔ یہ رب کا احسان و انعام ہے جو ان پر ہوا اور جس کے یہ مستحق تھے ۔ رب کا وعدہ ہے جو اس نے اپنے ذمے کر لیا ہے جو ہو کر رہنے والا ہے جس کا عدم ایفا ناممکن ہے ، جس کا غلط ہونا محال ہے ۔ اس سے اس کے وعدے کے پورا کرنے کا سوال کرو ، اس سے جنت طلب کرو ، اسے اس کا وعدہ یاد دلاؤ ۔ یہ بھی اس کا فضل ہے کہ اس کے فرشتے اس سے دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ رب العالمین مومن بندوں سے جو تیرا وعدہ ہے ، اسے پورا کر اور انہیں جنت عدن میں لے جا ۔ قیامت کے دن مومن کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ! تیرے وعدے کو سامنے رکھ کر ہم عمل کرتے رہے ، آج تو اپنا وعدہ پورا کر ۔ یہاں پہلے دوزخیوں کا ذکر کر کے پھر سوال کے بعد جنتیوں کا ذکر ہوا ۔ سورۃ الصافات میں جنتیوں کا ذکر کر کے پھر سوال کے بعد دوزخیوں کا ذکر ہوا کہ ’ کیا یہی بہتر ہے یا زقوم کا درخت ؟ جسے ہم نے ظالموں کے لیے فتنہ بنا رکھا ہے جو جہنم کی جڑ سے نکلتا ہے جس کے پھل ایسے بدنما ہیں جیسے سانپ کے پھن ۔ دوزخی اسے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھرنا پڑے گا ۔ پھر کھولتا ہوا گرم پانی پیپ وغیرہ سے ملا جلا پینے کو دیا جائے گا ۔ پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہو گا ۔ انہوں نے اپنے پاپ دادوں کو گمراہ پایا اور بےتحاشا ان کے پیچھے لپکنا شروع کر دیا ۔ ‘ ۱؎ (37-الصافات:62-70)