سورة الحج - آیت 46

أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

کیا (اہل مکہ نے) زمین کی سیر نہیں کی کہ انہیں سمجھ دار دل ‘ یا شنوا کان حاصل ہوتے ؟ سو کچھ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں ، لیکن دل جو سینوں میں ہیں ، اندھے ہوجاتے ہیں۔ (ف ٢)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

1 پس یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ ’ اگلوں کے واقعات سامنے رکھ کر دلوں کو سمجھدار بناؤ ان کی ہلاکت کے سچے افسانے سن کر عبرت حاصل کرو ۔ سن لو آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ سب سے برا اندھا پن دل کا ہے گو آنکھیں صحیح سالم موجود ہوں ۔ دل کے اندھے پن کی وجہ سے نہ تو عبرت حاصل ہوتی ہے نہ خیر و شر کی تمیز ہوتی ہے ‘ ۔ ابو محمد بن جیارہ اندلسی نے جن کا انتقال ؁٥١٧ھ میں ہوا ہے اس مضمون کو اپنے چند اشعار میں خوب نبھایا ہے وہ فرماتے ہیں ” اے وہ شخص جو گناہوں میں لذت پا رہا ہے کیا اپنے بڑھاپے اور نفس کی برائی سے بھی تو بیخبر ہے ؟ اگر نصیحت اثر نہیں کرتی تو کیا دیکھنے سننے سے بھی عبرت حاصل نہیں ہوتی ؟ سن لے آنکھیں اور کان اپنا کام نہ کریں تو اتنا برا نہیں جتنا ، برا یہ ہے کہ واقعات سے سبق نہ حاصل کیا جائے ۔ یاد رکھ نہ تو دنیا باقی رہے گی نہ آسمان نہ سورج چاند ۔ گو جی نہ چاہے مگر دنیا سے تم کو ایک روز بادل ناخواستہ کوچ کرناہی پڑے گا ۔ کیا امیر ہو کیا غریب کیا شہری ہو یا دیہاتی “ ۔