سورة الأنبياء - آیت 104

يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَا ۚ إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹیں گے (ف ٢) ۔ جیسے کاغذ کو طومار لپٹیتا ہے جیسے ہم نے پہلی پیدائش شروع کی تھی (ویسے) ہم اسے دہرائیں گے (یہ) وعدہ ہمارے ذمہ ہے ہمیں کرنا ہے ۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں تمام کائنات ’ یہ قیامت کے دن ہوگا جب ہم آسمان کو لپیٹ لیں گے ‘ ۔ جیسے فرمایا آیت «وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہِ» ۱؎ (39-الزمر:67) ’ ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی تھی ، جانا ہی نہیں ‘ ۔ تمام زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے ۔ وہ پاک اور برتر ہے ہر چیز سے جسے لوگ اس کا شریک ٹھہرا رہے ہیں ۔ بخاری شریف میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زمینوں کو مٹھی میں لے لے گا اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7412) ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” ساتوں آسمانوں کو اور وہاں کی کل مخلوق کو ، ساتوں زمینوں کو اور اس کی کل کائنات کو اللہ تعالیٰ اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا وہ اس کے ہاتھ میں ایسے ہوں گے جیسے رائی کا دانہ “ ۔ «سِّجِلِّ» سے مراد کتاب ہے ، اور کہا گیا ہے کہ مراد یہاں ایک فرشتہ ہے ۔ جب کسی کا استغفار چڑھتا ہے تو وہ کہتا ہے اسے نور لکھ لو ۔ یہ فرشتہ نامہ اعمال پر مقرر ہے ۔ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کی کتاب کو اور کتابوں کے ساتھ لپیٹ کر اسے قیامت کے لیے رکھ دیتا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ یہ نام ہے اس صحابی کا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب وحی تھا ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2935،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) لیکن یہ روایت ثابت نہیں اکثر حفاظ حدیث نے ان سب کو موضوع کہا ہے خصوصا ہمارے استاد حافظ کبیر ابو الحجاج مزی رحمتہ اللہ نے ۔ میں نے اس حدیث کو ایک الگ کتاب میں لکھا ہے ۔ امام جعفر بن جریر رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث پر بہت ہی انکار کیا ہے اور اس کی خوب تردید کی اور فرمایا ہے کہ ” «سِّجِلِّ» نام کا کوئی صحابی ہے ہی نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کاتبوں کے نام مشہور ومعروف ہیں کسی کا نام «سِّجِلِّ» نہیں ۔ فی الواقع امام صاحب نے صحیح اور درست فرمایا یہ بڑی وجہ ہے اس حدیث کے منکر ہونے کی ۔ بلکہ یہ بھی یاد رہے کہ جس نے اس صحابی کا ذکر کیا ہے اس نے اسی حدیث پر اعتماد کر کے ذکر کیا ہے اور لغتاً بھی یہی بات ہے پس فرمان ہے ’ جس دن ہم آسمان کو لپیٹ لیں گے اس طرح جیسے لکھی ہوئی کتاب لپیٹی جاتی ہے ‘ ۔ لام یہاں پر معنی میں علیٰ کے ہے جیسے «فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِینِ» ۱؎ (37-الصافات:103) میں لام معنی میں علیٰ ہے ۔ لغت میں اس کی اور نظیریں بھی ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یہ یقیناً ہو کر رہے گا ۔ اس دن اللہ تعالیٰ نئے سرے سے مخلوق کو پہلے کی طرح پیدا کرے گا ۔ جو ابتداء پر قادر تھا وہ اعادہ پر بھی اس سے زیادہ قادر ہے ۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اس کے وعدے اٹل ہوتے ہیں ، وہ کبھی بدلتے نہیں ، نہ ان میں تضاد ہوتا ہے ۔ وہ تمام چیزوں پر قادر ہے وہ اسے پورا کر کے ہی رہے گا ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اپنے ایک وعظ میں فرمایا : { تم لوگ اللہ کے سامنے جمع ہونے والے ہو ۔ ننگے پیر ننگے بدن بے ختنے ’ جیسے ہم نے پہلی بار پیدا کیا اسی طرح دوبارہ لوٹائینگے یہ ہمارا وعدہ ہے جسے ہم پورا کر کے رہیں گے ‘ } } ، الخ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4740) سب چیزیں نیست و نابود ہو جائیں گی پھر بنائی جائیں گی ۔