سورة الأنبياء - آیت 78

وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کو یاد کر جب وہ دونوں کھیت کا جھگڑا فیصل کرتے تھے جب اس میں رات کے وقت ایک قوم کی بکریاں چر گئی تھیں ، اور ہم ان کا فیصلہ دیکھ کررہے تھے (ف ١) ۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

ایک ہی مقدمہ میں داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کے مختلف فیصلے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” یہ کھیتی انگور کی تھی جس کے خوشے لٹک رہے تھے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:475/18:) «نَفَشَتْ» کے معنی ہیں رات کے وقت جانوروں کے چرنے کے ، اور دن کے وقت چرنے کو عربی میں «ھَمَل» کہتے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:477/18:) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اس باغ کو بکریوں نے بگاڑ دیا ۔ داؤد علیہ السلام نے یہ فیصلہ کیا کہ باغ کے نقصان کے بدلے یہ بکریاں باغ والے کو دے دی جائیں ۔ سلیمان علیہ السلام نے یہ فیصلہ سن کر عرض کی کہ اے اللہ کے نبی علیہ السلام اس کے سوا بھی فیصلے کی کوئی صورت ہے ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا وہ کیا ؟ جواب دیا کہ بکریاں باغ والے کے حوالے کر دی جائیں ، وہ ان سے فائدہ اٹھاتا رہے اور باغ بکری والے کو دے دیا جائے ۔ یہ اس میں انگور کی بیلوں کی خدمت کرے یہاں تک کہ بیلیں ٹھیک ٹھاک ہو جائیں ۔ انگور لگیں اور پھر اسی حالت پر آ جائیں جس پر تھے تو باغ والے کو اس کا باغ سونپ دے اور باغ والا اسے اس کی بکریاں سونپ دے ۔ یہی مطلب اس آیت کا ہے کہ ہم نے اس جھگڑے کا صحیح فیصلہ سلیمان علیہ السلام کو سمجھا دیا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:475/18:) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، ” داؤد علیہ السلام کا یہ فیصلہ سن کر بکریوں والے اپنا سا منہ لے کر صرف کتوں کو اپنے ساتھ لیے ہوئے واپس جا رہے تھے ۔ سلیمان علیہ السلام نے انہیں دیکھ کر دریافت کیا کہ تمہارا فیصلہ کیا ہوا ؟ انہوں نے خبر دی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ” اگر میں اس جگہ ہوتا تو یہ فیصلہ نہ دیتا بلکہ کچھ اور فیصلہ کرتا “ ۔ داؤد علیہ السلام کو جب یہ بات پہنچی تو آپ علیہ السلام نے انہیں بلوایا اور پوچھا کہ بیٹے تم کیا فیصلہ کرتے ؟ آپ نے وہی اوپر والا فیصلہ سنایا ۔ مسروق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” ان بکریوں نے خوشے اور پتے سب کھالئے تھے ۔ تو داؤد علیہ السلام کے فیصلے کے خلاف سلیمان علیہ السلام نے فیصلہ دیا کہ ان لوگوں کی بکریاں باغ والوں کو دے دی جائیں اور یہ باغ انہیں سونپا جائے ، جب تک باغ اپنی اصلی حالت پر آئے تب تک بکریوں کے بچے اور ان کا دودھ اور ان کا کل نفع باغ والوں کا ۔ پھر ہر ایک کو ان کی چیز سونپ دی جائے “ ۔ قاضی شریح رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بھی ایک ایسا ہی جھگڑا آیا تھا تو آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر دن کو بکریوں نے نقصان پہنچایا ہے تب تو کوئی معاوضہ نہیں ۔ اور اگر رات کو نقصان پہنچایا ہے تو بکریوں والے ضامن ہیں ۔ پھر آپ رحمہ اللہ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:479/18:) مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اونٹنی کسی باغ میں چلی گئی اور وہاں باغ کا بڑا نقصان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ باغ والوں پر دن کے وقت باغ کی حفاظت ہے اور جو نقصان جانوروں سے رات کو ہو اس کا جرمانہ جانور والوں پر ہے } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:238) اس حدیث میں علتیں نکالی گئی ہیں اور ہم نے کتاب الاحکام میں اللہ کے فضل سے اس کی پوری تفصیل بیان کر دی ہے ۔ مروی ہے کہ ایاس بن معاویہ رحمتہ اللہ علیہ سے جب کہ قاضی بننے کی درخواست کی گئی تو وہ حسن رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آئے اور رو دئے ۔ پوچھا گیا کہ اے ابوسعید آپ کیوں روتے ہیں ؟ فرمایا مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ اگر قاضی نے اجتہاد کیا ، پھر غلطی کی ، وہ جہنمی ہے اور جو خواہش نفس کی طرف جھک گیا ، وہ بھی جہنمی ہے ۔ ہاں جس نے اجتہاد کیا اور صحت پر پہنچ گیا ، وہ جنت میں پہنچا ۔ حسن رحمہ اللہ یہ سن کر فرمانے لگے ، ” سنو اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کی «قضاۃ» کا ذکر فرمایا ہے ، ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام اعلیٰ منصب پر ہوتے ہیں ، ان کے قول سے ان لوگوں کی باتیں رد ہو سکتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی تعریف تو بیان فرمائی ہے لیکن داؤد علیہ السلام کی مذمت بیان نہیں فرمائی ۔ پھر فرمانے لگے ، سنو تین باتوں کا عہد اللہ تعالیٰ نے قاضیوں سے لیا ہے ۔ ایک تو یہ کہ وہ منصفین شرع دنیوی نفع کی وجہ سے بدل نہ دیں ، دوسرے یہ کہ اپنے دلی ارادوں اور خواہشوں کے پیچھے نہ پڑ جائیں ، تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈریں ۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی «یَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیفَۃً فِی الْأَرْضِ فَاحْکُم بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوَیٰ فَیُضِلَّکَ عَن سَبِیلِ اللہِ » ۱؎ (38-ص:26) یعنی ’ اے داؤد ! ہم نے تجھے زمین کا خلیفہ بنایا ہے تو لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلے کرتا رہ خواہش کے پیچے نہ پڑ کہ اللہ کی راہ سے بہک جائے ‘ ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت «فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ» ۱؎ (5-المائدہ:44) ’ لوگوں سے نہ ڈرو مجھی سے ڈرتے رہا کرو ‘ ۔ اور فرمان ہے آیت «وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَـمَنًا قَلِیْلًا» ۱؎ (2-البقرۃ:41) ، ’ میری آیتوں کو معمولی نفع کی خاطر بیچ نہ دیا کرو ‘ ۔ میں کہتا ہوں انبیاء علیہم السلام کی معصومیت میں اور ان کی منجانب اللہ ہر وقت تائید ہوتے رہنے میں تو کسی کو بھی اختلاف نہیں ۔ رہے اور لوگ تو صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جب حاکم اجتہاد اور کوشش کرے پھ صحت تک پہنچ جائے تو اسے دوہرا اجر ملتا ہے اور جب پوری کوشش کے بعد بھی غلطی کرجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7352) یہ حدیث صاف بتا رہی ہے کہ حضرت ایاس رحمہ اللہ کو جو وہم تھا کہ باوجود پوری جدوجہد کے بھی خطا کرجائے تو دوزخی ہے یہ غلط ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سنن کی اور حدیث میں ہے ، { قاضی تین قسم کے ہیں ۔ ایک جنتی دو جہنمی اور جس نے حق کو معلوم کر لیا اور اسی سے فیصلہ کیا وہ جنتی ۔ اور جس نے جہالت کے ساتھ فیصلہ کیا وہ جہنمی اور جس نے حق کو جانتے ہوئے اس کے خلاف فیصلہ دیا وہ بھی جہنمی } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3573 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) قرآن کریم کے بیان کردہ اس واقعے کے قریب ہی وہ قصہ ہے جو مسند احمد میں ہے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، دو عورتیں تھیں جن کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے ۔ بھیڑیا آ کر ایک بچے کو اٹھا لے گیا ، اب ہر ایک دوسری سے کہنے لگی کہ تیرا بچہ گیا اور جو ہے وہ میرا بچہ ہے ۔ آخر یہ قصہ داؤد علیہ السلام کے سامنے پیش ہوا ۔ آپ علیہ السلام نے بڑی عورت کو ڈگری دے دی کہ یہ بچہ تیرا ہے ۔ یہ یہاں سے نکلیں راستے میں سلیمان علیہ السلام تھے ، آپ علیہ السلام نے دونوں کو بلایا اور فرمایا چھری لاؤ ۔ میں اس لڑکے کے دو ٹکڑے کر کے آدھا آدھا ان دونوں کو دے دیتا ہوں ۔ اس پر بڑی تو خاموش ہوگئی لیکن چھوٹی نے ہائے واویلا شروع کر دیا کہ اللہ آپ علیہ السلام پر رحم کرے آپ علیہ السلام ایسا نہ کیجئے ، یہ لڑکا اسی بڑی کا ہے اسی کو دے دیجئیے ۔ سلیمان علیہ السلام معاملے کو سمجھ گئے اور لڑکا چھوٹی عورت کو دلادیا } ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3427) امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ نے اس پر باب باندھا ہے کہ حاکم کو جائز ہے کہ اپنا فیصلہ اپنے دل میں رکھ کر حقیقت کو معلوم کرنے کے لیے اس کے خلاف کچھ کہے ۔ ایسا ہی ایک واقعہ ابن عساکر میں ہے کہ ایک خوبصورت عورت سے ایک رئیس نے ملنا چاہا لیکن عورت نے نہ مانا ، اسی طرح تین اور شخصوں نے بھی اس سے بدکاری کا ارادہ کیا لیکن وہ باز رہی ۔ اس پر وہ رؤسا خار کھا گئے اور آپس میں اتفاق کر کے داؤد علیہ السلام کی عدالت میں جا کر سب نے گواہی دی کہ وہ عورت اپنے کتے سے ایسا کام کراتی ہے چاروں کے متفقہ بیان پر حکم ہوگیا کہ اسے رجم کر دیا جائے ۔ اسی شام کو سلیمان علیہ السلام اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر خود حاکم بنے اور چار لڑکے ان لوگوں کی طرح آپ علیہ السلام کے پاس اس مقدمے کو لائے اور ایک عورت کی نسبت یہی کہا ۔ سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا ان چاروں کو الگ الگ کر دو ۔ پھر ایک کو اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا کہ اس کتے کا رنگ کیسا تھا ؟ اس نے کہا سیاہ ۔ پھر دوسرے کو تنہا بلایا اس سے بھی یہی سوال کیا اس نے کہا سرخ ۔ تیسرے نے کہا خاکی ۔ چوتھے نے کہا سفید ۔ آپ علیہ السلام نے اسی وقت فیصلہ دیا کہ عورت پر یہ نری تہمت ہے اور ان چاروں کو قتل کر دیا جائے ۔ داؤد علیہ السلام کے پاس بھی یہ واقعہ بیان کیا گیا ۔ آپ علیہ السلام نے اسی وقت فی الفور ان چاروں امیروں کو بلایا اور اسی طرح الگ الگ ان سے اس کتے کے رنگ کی بابت سوال کیا ۔ یہ گڑبڑا گئے ۔ کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ ۔ آپ کو ان کا جھوٹ معلوم ہو گیا اور حکم فرمایا کہ انہیں قتل کر دیا جائے ۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ ’ داؤد علیہ السلام کو وہ نورانی گلا عطا فرمایا گیا تھا اور آپ علیہ السلام ایسی خوش آوازی اور خلوص کے ساتھ زبور پڑھتے تھے کہ پرند بھی اپنی پرواز چھوڑ کر تھم جاتے تھے اور اللہ کی تسبیح بیان کرنے لگتے تھے ۔ اسی طرح پہاڑ بھی ‘ ۔ آیت میں ہے «وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا یَا جِبَالُ أَوِّبِی مَعَہُ وَالطَّیْرَ وَأَلَنَّا لَہُ الْحَدِیدَ» ۱؎ (34-سبأ:10) ’ اور ہم نے داؤد پر اپنا فضل کیا ، اے پہاڑو ! اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح پڑھا کرو اور پرندوں کو بھی [ یہی حکم ہے ] اور ہم نے اس کے لیے لوہا نرم کر دیا ‘ ۔ ایک روایت میں ہے کہ { رات کے وقت سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تلاوت قرآن کریم کر رہے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی میٹھی رسیلی اور خلوص بھری آواز سن کر ٹھہر گئے اور دیر تک سنتے رہے ، پھر فرمانے لگے { یہ تو آل داؤد کی آوازوں کی شیرینی دیئے گئے ہیں } ۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہا کو جب معلوم ہوا تو فرمانے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری قرأت سن رہے ہیں تو میں اور بھی اچھی طرح پڑھتا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5048)