سورة طه - آیت 123

قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

فرمایا ، تم دونوں یہاں سے اکٹھے اترو ، ایک دوسرے کے دشمن ہو ، پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کے تابع ہوگا ، وہ نہ بہکے گا ، اور نہ دکھ اٹھائے گا ،

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

ایک دوسرے کے دشمن آدم علیہ السلام و حواء علیہا السلام اور ابلیس لعین سے اسی وقت فرما دیا گیا کہ تم سب جنت سے نکل جاؤ ۔ سورۃ البقرہ میں اس کی پوری تفسیر گزر چکی ہے ۔ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو یعنی اولاد آدم اور اولاد ابلیس ۔ تمہارے پاس میرے رسول اور میری کتابیں آئیں گی ۔ میری بتائی ہوئی راہ کی پیروی کرنے والے نہ تو دنیا میں رسوا ہوں گے نہ آخرت میں ذلیل ہوں گے ۔ ہاں حکموں کے مخالف ، میرے رسول کی راہ کے تارک ، دوسری راہوں پہ چلنے والے دنیا میں بھی تنگ رہیں گے ، اطمینان اور کشادہ دلی میسر نہ ہو گی ۔ اپنی گمراہی کی وجہ سے تنگیوں میں ہی رہیں گے گو بظاہر کھانے پینے پہننے اوڑھنے رہنے سہنے کی فراخی ہو لیکن دل میں یقین و ہدایت نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ شک و شبہے اور تنگی اور قلت میں مبتلا رہیں گے ۔ بدنصیب ، رحمت الٰہی سے محروم ، خیر سے خالی ۔ کیونکہ اللہ پر ایمان نہیں ، اس کے وعدوں کا یقین نہیں ، مرنے کے بعد کی نعمتوں میں کوئی حصہ نہیں ۔ اللہ کے ساتھ بدگمان ہیں ، گئی ہوئی چیز کو آنے والی نہیں سمجھتے ۔ خبیث روزیاں ہیں ، گندے عمل ہیں ، قبر تنگ و تاریک ہے ۔ وہاں اس طرح دبوچا جائے گا کہ دائیں پسلیاں بائیں میں اور بائیں طرف کی دائیں طرف میں گھس جائیں گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، { مومن کی قبر ہرا بھرا سرسبز باغیچہ ہے ، ستر [ 70 ] ہاتھ کی کشادہ ہے ، ایسا معلوم ہوتا ہے گویا چاند اس میں ہے ، خوب نور اور روشنی پھیل رہی ہے جیسے چودھویں رات کا چاند چڑھا ہوا ہو ۔ اس آیت کا شان نزول معلوم ہے کہ میرے ذکر سے منہ پھیرنے والوں کی معیشت تنگ ہے ۔ اس سے مراد کافر کی قبر میں اس پر عذاب ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:227/16:ضعیف) اللہ کی قسم اس پر ننانوے اژدھے مقرر کئے جاتے ہیں ہر ایک کے سات سات سر ہوتے ہیں جو اسے قیامت تک ڈستے رہتے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:24426:ضعیف) اس حدیث کا مرفوع ہونا بالکل منکر ہے ۔ } ایک عمدہ سند سے بھی مروی ہے کہ { اس سے مراد عذاب قبر ہے ۔} ۱؎ (مستدرک حاکم:381/2:حسن) یہ قیامت کے دن اندھا بنا کر اٹھایا جائے گا سوائے جہنم کے کوئی چیز اسے نظر نہ آئے گی ۔ نابینا ہو گا اور میدان حشر کی طرف چلایا جائے گا اور جہنم کے سامنے کھڑا کر دیا جائے گا ۔ جیسے فرمان ہے « وَنَحْشُرُہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ عُمْیًا وَّبُکْمًا وَّصُمًّا ۭ مَاْوٰیہُمْ جَہَنَّمُ ۭ کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰہُمْ سَعِیْرًا»۱؎ (17-الإسراء:97) ۔ ’ یعنی ہم انہیں قیامت کے دن اوندھے منہ اندھے گونگے بہرے بنا کر حشر میں لے جائیں گے ان کا اصلی ٹھکانہ دوزخ ہے ۔ ‘ یہ کہیں گے کہ میں تو دنیا میں آنکھوں والا خوب دیکھتا بھالتا تھا ، پھر مجھے اندھا کیوں کر دیا گیا ؟ جواب ملے گا کہ یہ بدلہ ہے اللہ کی آیتوں سے منہ موڑ لینے کا اور ایسا ہو جانے کا گویا خبر ہی نہیں ۔ پس آج ہم بھی تیرے ساتھ ایسا معاملہ کریں گے کہ جیسے تو ہماری یاد سے اتر گیا ۔ جیسے فرمان ہے «فَالْیَوْمَ نَنْسٰیہُمْ کَمَا نَسُوْا لِقَاۗءَ یَوْمِہِمْ ھٰذَا ۙ وَمَا کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:51) ۔ ’ آج ہم انہیں ٹھیک اسی طرح بھلا دیں گے جیسے انہوں نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا ۔ ‘ پس یہ برابر کا اور عمل کی طرح کا بدلہ ہے ۔ قرآن پر ایمان رکھتے ہوئے اس کے احکام کا عامل ہوتے ہوئے کسی شخص سے اگر اس کے الفاظ حفظ سے نکل جائیں تو وہ اس وعید میں داخل نہیں ۔ اس کے لیے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے جذامی ہونے کی حالت میں ملاقات کرے گا ۔} ۱؎ (سنن ابوداود:1474:ضعیف)