سورة طه - آیت 24

اذْهَبْ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو فرعون کی طرف چلا جا ، کہ ہو سرکش ہوگیا ہے ۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

فرعون کے سامنے کلمہ حق پھر حکم ہوا کہ فرعون نے ہماری بغاوت پر کمر کس لی ہے ، اس کے پاس جا کر اسے سمجھاؤ ۔ وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو قریب ہونے کا حکم دیا یہاں تک کہ آپ اس درخت کے تنے سے لگ کر کھڑے ہو گئے ، دل ٹھہر گیا ، خوف و خطر دور ہو گیا ۔ دونوں ہاتھ اپنی لکڑی پر ٹکا کر سرجھکا کر گردن خم کر کے با ادب ارشاد الٰہی سننے لگے تو فرمایا گیا کہ ملک مصر کے بادشاہ فرعون کی طرف ہمارا پیغام لے کر جاؤ ، یہیں سے تم بھاگ کر آئے ہو ۔ اس سے کہو کہ وہ ہماری عبادت کرے ، کسی کو شریک نہ بنائے ، بنو اسرائیل کے ساتھ سلوک و احسان کرے ، انہیں تکلیف اور ایذاء نہ دے ۔ فرعون بڑا باغی ہو گیا ہے ، دنیا کا مفتون بن کر آخرت کو فراموش کر بیٹھا ہے اور اپنے پیدا کرنے والے کو بھول گیا ہے ، تو میری رسالت لے کر اس کے پاس جا ۔ میرے کان اور میری آنکھیں تیرے ساتھ ہیں ، میں تجھے دیکھتا بھالتا اور تیری باتیں سنتا سناتا رہوں گا ۔ میری مدد تیرے پاس ہو گی ، میں نے اپنی طرف سے تجھے حجتیں عطا فرما دی ہیں اور تجھے قوی اور مضبوط کر دیا ہے ، تو اکیلا ہی میرا پورا لشکر ہے ۔ اپنے ایک ضعیف بندے کی طرف تجھے بھیج رہا ہوں جو میری نعمتیں پا کر پھول گیا ہے اور میری پکڑ کو بھول گیا ہے ، دنیا میں پھنس گیا اور غرور و تکبر میں دھنس گیا ہے ۔ میری ربوبیت سے بیزار ، میری الوہیت سے برسر پیکار ہے ۔ مجھ سے آنکھیں پھیر لی ہیں ، دیدے بدل لیے ہیں ۔ میری پکڑ سے غافل ہو گیا ہے ۔ میرے عذابوں سے بیخوف ہو گیا ہے ۔ مجھے اپنی عزت کی قسم اگر میں اسے ڈھیل دینا نہ چاہتا تو آسمان اس پر ٹوٹ پڑتے زمین اسے نگل جاتی دریا اسے ڈبو دیتے لیکن چونکہ وہ میرے مقابلے کا نہیں ، ہر وقت میرے بس میں ہے ، میں اسے ڈھیل دیے ہوئے ہوں اور اس سے بےپرواہی برت رہا ہوں ۔ میں ہوں بھی ساری مخلوق سے بےپرواہ ۔ حق تو یہ ہے کہ بےپروائی صرف میری ہی صفت ہے ۔ تو میری رسالت ادا کر ، اسے میری عبادت کی ہدایت کر ، اسے توحید و اخلاص کی دعوت دے ، میری نعمتیں یاد دلا ۔ میرے عذابوں سے دھمکا ، میرے غضب سے ہوشیار کر دے ۔ جب میں غصہ کر بیٹھتا ہوں تو امن نہیں ملتا ۔ اسے نرمی سے سمجھا تاکہ نہ ماننے کا عذر ٹوٹ جائے ۔ میری بخشش کی ، میرے کرم و رحم کی اسے خبر دے ۔ کہہ دے کہ اب بھی اگر میری طرف جھکے گا تو میں تمام بد اعمالیوں سے قطع نظر کر لوں گا ۔ میری رحمت میرے غضب سے بہت زیادہ وسیع ہے ۔ خبردار اس کا دنیوی ٹھاٹھ دیکھ کر رعب میں نہ آ جانا ، اس کی چوٹی میرے ہاتھ میں ہے ۔ اس کی زبان چل نہیں سکتی اس کے ہاتھ اٹھ نہیں سکتے اس کی آنکھ پھڑک نہیں سکتی اس کا سانس چل نہیں سکتا جب تک میری اجازت نہ ہو ۔ اسے سمجھا کہ میری مان لے تو میں بھی مغفرت سے پیش آؤں گا ۔ چار سو سال اسے سرکشی کرتے ، میرے بندوں پر ظلم ڈھاتے ، میری عبادت سے لوگوں کو روکتے گزر چکے ہیں ۔ تاہم نہ میں نے اس پر بارش بند کی نہ پیداوار روکی نہ بیمار ڈالا نہ بوڑھا کیا نہ مغلوب کیا ۔ اگر چاہتا ظلم کے ساتھ ہی پکڑ لیتا لیکن میرا حلم بہت بڑھا ہوا ہے ۔ تو اپنے بھائی کے ساتھ مل کر اس سے پوری طرح جہاد کر اور میری مدد پر بھروسہ رکھ ، میں اگر چاہوں تو اپنے لشکروں کو بھیج کر اس کا بھیجا نکال دوں ۔ لیکن اس بے بنیاد بندے کو دکھانا چاہتا ہوں کہ میری جماعت کا ایک بھی روئے زمین کی طاقتوں پر غالب آ سکتا ہے ۔ مدد میرے اختیار میں ہے ۔ دنیاوی جاہ و جلال کی تو پرواہ نہ کرنا بلکہ آنکھ بھر کر دیکھنا بھی نہیں ۔ میں اگر چاہوں تو تمہیں اتنا دے دوں کہ فرعون کی دولت اس کے پاسنگ میں بھی نہ آ سکے لیکن میں اپنے بندوں کو عموماً غریب ہی رکھتا ہوں تاکہ ان کی آخرت سنوری رہے ۔ یہ اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ میرے نزدیک قابل اکرام نہیں بلکہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ دونوں جہان کی نعمتیں آنے والے جہان میں جمع مل جائیں ۔ میرے نزدیک بندے کا کوئی عمل اتنا وقعت والا نہیں جتنا زہد اور دنیا سے دوری ۔ میں اپنے خاص بندوں کو سکینت اور خشوع خضوع کا لباس پہنا دیتا ہوں ، ان کے چہرے سجدوں کی چمک سے روشن ہو جاتے ہیں ۔ یہی سچے اولیا اللہ ہوتے ہیں ۔ ان کے سامنے ہر ایک کو با ادب رہنا چاہیئے ۔ اپنی زبان اور دل کو ان کا تابع رکھنا چاہیئے ۔ سن لے ! میرے دوستوں سے دشمنی رکھنے والا گویا مجھے لڑائی کا اعلان دیتا ہے ۔ تو کیا مجھ سے لڑنے کا ارادہ رکھنے والا کبھی سرسبز ہو سکتا ہے ؟ میں نے قہر کی نظر سے اسے دیکھا اور وہ تہس نہس ہوا ۔ میرے دشمن مجھ پر غالب نہیں آ سکتے ، میرے مخالف میرا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے ۔ میں اپنے دوستوں کی خود مدد کرتا ہوں ، انہیں دشمنوں کا شکار نہیں ہونے دیتا ۔ دنیا و آخرت میں انہیں سرخرو رکھتا ہوں اور ان کی مدد کرتا ہوں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنا بچپن کا زمانہ فرعون کے گھر میں بلکہ اس کی گود میں گزارا تھا ، جوانی تک ملک مصر میں اسی کی بادشاہت میں ٹھہرے رہے تھے ۔ پھر ایک قبطی بے ارادہ آپ کے ہاتھ سے مر گیا تھا جس سے آپ یہاں سے بھاگ نکلے تھے تب سے لے کر آج تک مصر کی صورت نہیں دیکھی تھی ۔ فرعون ایک سخت دل ، بدخلق ، اکھڑ مزاج ، آوارہ انسان تھا ۔ غرور اور تکبر اتنا بڑھ گیا تھا کہ کہتا تھا کہ میں اللہ کو جانتا ہی نہیں ۔ اپنی رعایا سے کہتا تھا کہ تمہارا رب میں ہی ہوں ۔ ملک و مال میں ، دولت و متاع میں ، لاؤ لشکر اور کروفر میں کوئی روئے زمین پر اس کے مقابلے کا نہ تھا ۔