سورة مريم - آیت 61

جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدَ الرَّحْمَٰنُ عِبَادَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ہمیشہ رہنے کے باغ جن کا رحمن نے بن دیکھے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ، بےشک اس کا وعدہ آنے والا ہے (ف ١) ۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

اللہ تعالٰی کے وعدے برحق ہیں جن جنتوں میں گناہوں سے توبہ کرنے والے داخل ہوں گے ، یہ جنتیں ہمیشہ والی ہوں گی جن کا غائبانہ وعدہ ان سے ان کا رب کر چکا ہے ۔ ان جنتوں کو انہوں نے دیکھا نہیں لیکن تاہم دیکھنے سے بھی زیادہ انہیں ان پر یقین و ایمان ہے ۔ بات بھی یہی ہے کہ اللہ کے وعدے اٹل ہوتے ہیں «وَعْدُہُ مَفْعُولًا» ۱؎ (73-المزمل:18) ’ وہ حقائق ہیں جو سامنے آ کر ہی رہیں گے ‘ ۔ نہ اللہ وعدہ خلافی کرے نہ وعدے کو بدلے ، یہ لوگ وہاں ضرور پہنچائے جائیں گے اور اسے ضرور پائیں گے ۔ «مَأْتِیًّا» کے معنی «اَتِیًا» کے بھی آتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ جہاں ہم جائیں ، وہ ہمارے پاس آ ہی گیا ۔ جیسے کہتے ہیں ، مجھ پر پچاس سال آئے یا میں پچاس سال کو پہنچا ۔ مطلب دونوں جملوں کا ایک ہی ہوتا ہے ۔ ناممکن ہے کہ ان جنتوں میں کوئی لغو اور ناپسندیدہ کلام ان کے کانوں میں پڑے ۔ صرف مبارک سلامت کی دھوم ہو گی ۔ چاروں طرف سے اور خصوصاً فرشتوں کی پاک زبانی یہی مبارک صدائیں کان میں گونجتی رہیں گی ۔ جیسے سورۃ الواقعہ میں ہے «لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا إِلَّا قِیلًا سَلَامًا سَلَامًا» ۱؎ (56-الواقعۃ:26،25) ’ وہاں کوئی بے ہودہ اور خلاف طبع سخن نہ سنیں گے بجز سلام اور سلامتی کے ‘ ۔ یہ استثنا منقطع ہے ۔ صبح شام پاک ، طیب ، عمدہ ، خوش ذائقہ روزیاں بلا تکلف و تکلیف بے مشقت و زحمت چلی آئیں گی ۔ لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ جنت میں بھی دن رات ہونگے ، نہیں ، بلکہ ان انوار سے ان وقتوں کو جنتی پہچان لیں گے جو اللہ کی طرف سے مقرر ہیں ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { پہلی جماعت جو جنت میں جائے گی ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند جیسے روشن اور نورانی ہوں گے ۔ نہ وہاں انہیں تھوک آئے گا نہ ناک آئے گی نہ پیشاب پاخانہ ۔ ان کے برتن اور فرنیچر سونے کے ہوں گے ، ان کا بخور خوشبودار اگر ہو گا ، ان کے پسینے مشک بو ہوں گے ۔ ہر ایک جنتی مرد کی دو بیویاں تو ایسی ہوں گی کہ ان کے پنڈے کی صفائی سے ان کی پنڈلیوں کی نلی کا گودا تک باہر سے نظر آئے ۔ ان سب جنتوں میں نہ تو کسی کو کسی سے عداوت ہو گی نہ بغض ، سب ایک دل ہوں گے ۔ کوئی اختلاف باہم دیگر نہ ہو گا ۔ صبح شام اللہ کی تسبیح میں گزریں گے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3245) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، شہید لوگ اس وقت جنت کی ایک نہر کے کنارے جنت کے دروازے کے پاس سرخ رنگ قبوں میں ہیں ۔ صبح شام روزی پہنچائے جاتے ہیں } (مسند احمد:266/1:حسن) پس صبح و شام بااعتبار دنیا کے ہے ، وہاں رات نہیں بلکہ ہروقت نور کا سماں ہے ، پردے گر جانے اور دروازے بند ہو جانے سے اہل جنت وقت شام کو اور اسی طرح پردوں کے ہٹ جانے اور دروازوں کے کھل جانے سے صبح کے وقت کو جان لیں گے ۔ ان دروازوں کا کھلنا بند ہونا بھی جنتیوں کے اشاروں اور حکموں پر ہوگا ۔ یہ دروازے بھی اس قدر صاف شفاف آئینہ نما ہیں کہ باہر کی چیزیں اندر سے نظر آئیں ۔ چونکہ دنیا میں دن رات کی عادت تھی ، اس لیے جو وقت جب چاہیں گے پائیں گے ۔ چونکہ عرب صبح شام ہی کھانا کھانے کے عادی تھے ، اس لیے جنتی رزق کا وقت بھی وہی بتایا گیا ہے ورنہ جنتی جو چاہیں جب چاہیں موجود پائیں گے ۔ چنانچہ ایک غریب منکر حدیث میں ہے کہ { صبح شام کا کیا ٹھیکہ ہے ، رزق تو بے شمار ہر وقت موجود ہے لیکن اللہ کے دوستوں کے پاس ان اوقات میں حوریں آئیں گی جن میں ادنی درجے کی وہ ہوں گی جو صرف زعفران سے پیدا کی گئی ہیں } ۔ ۱؎ (الکامل لا بن عدی:239/6:ضعیف) یہ نعمتوں والی جنتیں انہیں ملیں گی جو ظاہر باطن اللہ کے فرمانبردار تھے ، جو غصہ پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے تھے ، جن کی صفتیں «قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ» سے «ہُمْ فِیہَا خَالِدُونَ» تک (23-المؤمنون:11-1) کے شروع میں بیان ہوئی ہیں اور فرمایا گیا ہے کہ ’ یہی وارث فردوس بریں ہیں جن کے لیے دوامی طور پر جنت الفردوس اللہ نے لکھ دی ہے ‘ ۔ [ اے اللہ ! اے اللہ ! اے اللہ ہمیں بھی تو اپنی رحمت کاملہ سے فردوس بریں میں پہنچا ، آمین ]