سورة البقرة - آیت 222

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور تجھ کو حیض کی بابت پوچھتے ہیں تو کہہ وہ گندگی (ف ٢) ہے سو حیض کے وقت عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو لیں ‘ ان کے قریب نہ جاؤ پھر جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس ادھر سے جاؤ جدھر سے خدانے تم کو حکم دیا ہے ، بیشک اللہ دوست رکھتا ہے توبہ کرنے والوں کو اور دوست رکھتا ہے پاک رہنے والوں کو ۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

ایام حیض اور جماع سے متعلقہ مسائل سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہودی لوگ حائضہ عورتوں کو نہ اپنے ساتھ کھلاتے تھے اور نہ اپنے ساتھ رکھتے تھے ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا جس کے جواب میں یہ آیت اتری ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے جماع کے اور سب کچھ حلال ہے یہودی یہ سن کر کہنے لگے کہ انہیں تو ہماری مخالفت ہی سے غرض ہے ، سیدنا اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہما نے یہودیوں کا یہ کلام نقل کر کے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر ہمیں جماع کی بھی رخصت دی جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ یہ سن کر متغیر ہو گیا یہاں تک کہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے خیال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر ناراض ہو گئے ۔ جب یہ بزرگ جانے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی بزرگ تحفتاً دودھ لے کر آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے آدمی بھیج کر انہیں بلایا اور وہ دودھ انہیں پلایا ، اب معلوم ہوا کہ وہ غصہ جاتا رہا ۔ (صحیح مسلم:302) پس اس فرمان کا کہ حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو یہ مطلب ہوا کہ جماع نہ کرو اس لیے کہ اور سب حلال ہے ۔ اکثر علماء کا مذہب ہے کہ سوائے جماع کے مباشرت جائز ہے ، احادیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسی حالت میں ازواج مطہرات سے ملتے جلتے لیکن وہ تہبند باندھے ہوئے ہوتی تھیں ۔ (سنن ابوداود:272 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدہ عمارہ کی پھوپھی صاحبہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کرتی ہیں کہ اگر عورت حیض کی حالت میں ہو اور گھر میں میاں بیوی کا ایک ہی بستر ہو تو وہ کیا کرے ؟ یعنی اس حالت میں اس کے ساتھ اس کا خاوند سو سکتا ہے یا نہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ، سنو ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے ، آتے ہی نماز کی جگہ تشریف لے گئے اور نماز میں مشغول ہو گئے ، دیر زیادہ لگ گئی اور اس عرصہ میں مجھے نیند آ گئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاڑا لگنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ادھر آؤ ، میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں تو حیض سے ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھٹنوں کے اوپر سے کپڑا ہٹانے کا حکم دیا اور پھر میری ران پر رخسار اور سینہ رکھ کر لیٹ گئے ، میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک گئی تو سردی کچھ کم ہوئی اور اس گرمی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند آ گئی ۔(سنن ابوداود:270،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) «صلی اللہ علیہ و علی ازواجہ و اصحابہ وسلم» حضرت مسروق رحمہ اللہ ایک مرتبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور کہا السلام علی النبی و علی اھلہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دے کر مرحبا مرحبا کہا اور اندر آنے کی اجازت دی ، آپ رحمہ اللہ نے کہا ام المؤمنین ایک مسئلہ پوچھتا ہوں لیکن شرم معلوم ہوتی ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ، سُن میں تیری ماں اور تو قائم مقام میرے بیٹے کے ہے ، جو پوچھنا ہو پوچھ ، کہا فرمائیے آدمی کیلئے اپنے حائضہ بیوی حلال ہے ؟ فرمایا سوائے شرمگاہ کے اور سب جائز ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:378/4) اور سندوں سے بھی مختلف الفاظ کے ساتھ ام المؤمنین کا یہ قول مروی ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ مجاہد حسن اور عکرمہ رحمہ اللہ علیہم کا فتویٰ بھی یہی ہے ، مقصد یہ ہے کہ حائضہ عورت کے ساتھ لیٹنا بیٹھنا اس کے ساتھ کھانا پینا وغیرہ امور بالاتفاق جائز ہیں ۔ سیدہ عائشہ سے منقول ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سر دھویا کرتی آپ میری گود میں ٹیک لگا کر لیٹ کرقرآن شریف کی تلاوت فرماتے حالانکہ میں حیض سے ہوتی تھی ، (صحیح بخاری:301) میں ہڈی چوستی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی ہڈی کو وہیں منہ لگا کر چوستے تھے ، میں پانی پیتی تھی پھر گلاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں منہ لگا کر اسی گلاس سے پانی پیتے اور میں اس وقت حائضہ ہوتی تھی ، (صحیح مسلم:300) ابوداؤد میں روایت ہے کہ میرے حیض کے شروع دِنوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ ہی لحاف میں سوتے تھے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا کہیں سے خراب ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی ہی جگہ کو دھو ڈالتے ۔ اگر جسم مبارک پر کچھ لگ جاتا تو اسے بھی دھو ڈالتے اور پھر ان ہی کپڑوں میں نماز پڑھتے ۔ (سنن ابوداود:285 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ہاں ابوداؤد کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں جب حیض سے ہوتی تو بسترے سے اتر جاتی اور بورئیے پر آ جاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے قریب بھی نہ آتے جب تک میں پاک نہ ہو جاؤں ۔ (سنن ابوداود:271 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) تو یہ روایت محمول ہے کہ آپ پرہیز اور احتیاط کرتے تھے نہ یہ کہ محمول ہو حرمت اور ممانعت پر ۔ بعض حضرات یہ بھی فرماتے ہیں کہ تہبند ہوتے ہوئے فائدہ اٹھائے ، میمونہ بنت حارث ہلالیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی کسی اہلیہ سے ان کی حیض کی حالت میں ملنا چاہتے تھے تو انہیں حکم دیتے تھے کہ تہبند باندھ لیں ۔ (صحیح بخاری:303) اس طرح بخاری مسلم میں بھی یہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص سوال کرتا ہے کہ میری بیوی سے مجھے اس کے حیض کے حالت میں کیا کچھ حلال ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تہبند سے اوپر کا کل ۔ (سنن ابوداود:212 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک اور روایت میں ہے کہ اس سے بھی بچنا بہتر ہے ۔ (سنن ابوداود:213 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ، سعید بن مسیب رحمہ اللہ اور شریح کا مذہب بھی یہی ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے اس بارے میں دو قول ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ اکثر عراقیوں وغیرہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ یہ تو متفقہ فیصلہ ہے کہ جماع حرام ہے اس لیے اس کے آس پاس سے بھی بچنا چاہیئے تاکہ حرمت میں واقع ہونے کا خطرہ نہ رہے ۔ حالت حیض میں جماع کی حرمت اور اس کام کے کرنے والے کا گنہگار ہونا تو یقین امر ہے جسے توبہ استغفار کرنا لازمی ہے لیکن اسے کفارہ بھی دینا پڑے گا یا نہیں اس میں علماء کرام کے دو قول ہیں ۔ ایک تو یہ کہ کفارہ بھی ہے چنانچہ مسند احمد اور سنن میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنی حائضہ بیوی سے جماع کرے وہ ایک دینار یا آدھا دینار صدقہ دے ۔ (مسند احمد:230/1:صحیح) ترمذی میں ہے کہ خون اگر سرخ ہو تو ایک دینار اور اگر زرد رنگ کا ہو تو آدھا دینار ۔ (سنن ترمذی:137 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح مرفوعاً) مسند احمد میں ہے کہ اگر خون پیچھے ہٹ گیا اور ابھی اس عورت نے غسل نہ کیا ہو اور اس حالت میں اس کا خاوند اس سے ملے تو آدھا دینار ورنہ پورا دینار ۔ (مسند احمد:367/1:ضعیف) دوسرا قول یہ ہے کہ کفارہ کچھ بھی نہیں صرف اللہ عزوجل سے استغفار کرے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی آخری اور زیادہ صحیح یہی مذہب ہے اور جمہور علماء بھی اسی کے قائل ہیں ۔ جو حدیثیں اوپر بیان ہوئیں ان کی نسبت یہ حضرات فرماتے ہیں کہ ان کا مرفوع ہونا صحیح نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ موقوف ہیں گو یہ حدیث روایتاً مرفوع اور موقوف دونوں طرح مروی ہے لیکن اکثر ائمہ حدیث کی تحقیق ہے کہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ موقوف ہے ۔ یہ فرمان کہ جب تک عورتیں پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ ۔ یہ تفسیر ہے اس فرمان کی کہ عورتوں سے ان کی حیض کی حالت میں جدا رہو ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت حیض ختم ہو جائے پھر نزدیکی حلال ہے ۔ حضرت امام ابوعبداللہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں طہر یعنی پاکی دلالت کرتی ہے کہ اب اس سے نزدیکی جائز ہے ۔ سیدہ میمونہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمانا کہ ہم میں سے جب کوئی حیض سے ہوتی تو تہبند باندھ لیتی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں سوتی ، (صحیح بخاری:302) اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ جس زندگی سے منع کیا گیا ہے وہ جماع ہے ، ویسے سونا بیٹھنا وغیرہ سب جائز ہے ۔ اس کے بعد یہ فرمان ان کے پاک ہو جانے کے بعد ان کے پاس آؤ ۔ اس میں ارشاد ہے کہ اس کے غسل کر لینے کے بعد ان سے جماع کرو ۔ امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ ہر حیض کی پاکیزگی کے بعد جماع کرنا واجب ہے ، اس کی دلیل آیت «فَأْتُوہُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللہُ إِنَّ اللہَ یُحِبٰ التَّوَّابِینَ وَیُحِبٰ الْمُتَطَہِّرِینَ» ( البقرہ : 222 ) ہے جس میں حکم ہے لیکن یہ دلیل کوئی پختہ نہیں ۔ یہ امر تو صرف حرمت کو ہٹا دینے کا اعلان ہے اور اس کے سوا اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ، علماء اصول میں سے بعض تو کہتے ہیں کہ امر یعنی حکم مطلقاً وجوب کیلئے ہوتا ہے ان لوگوں کو امام ابن حزم رحمہ اللہ کا جواب بہت گراں ہے ۔ بعض کہتے ہیں یہ امر صرف اباحت کیلئے ہے اور چونکہ اس سے پہلے ممانعت وارد ہو چکی ہے یہ قرینہ ہے جو امر کو وجوب سے ہٹا دیتا ہے لیکن یہ غور طلب بات ہے ، دلیل سے جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ ایسے موقع پر یعنی پہلے منع ہو پھر “ حکم “ ہو تو حکم اپنی اصل پر رہتا ہے یعنی جو بات منع سے پہلے جیسی تھی ویسی ہی اب ہو جائے گی یعنی اگر منع سے پہلے وہ کام واجب تھا تو اب بھی واجب ہی رہے گا ، جیسے قرآن کریم میں ہے آیت «فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتٰمُــوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ» ( 9 ۔ التوبہ : 5 ) یعنی جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں سے جہاد کرو ۔ اور اگر یہ کام ممانعت سے پہلے مباح تھا تو اب بھی وہ مباح رہے گا جیسے آیت «وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا» ( 5 ۔ المائدہ : 2 ) جب تم احرام کھول دو تو شکار کھیلو ، اور جگہ ہے آیت «فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ» ( 62 ۔ الجمعہ : 10 ) یعنی جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ ۔ ان علماء کرام کا یہ فیصلہ ان مختلف اقوال کو جمع بھی کر دیتا ہے جو امر کے وجوب وغیرہ کے بارے میں ہیں ۔ غزالی رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اسے بیان کیا ہے اور بعض ائمہ متاخرین نے بھی اسے پسند فرمایا ہے اور یہی صحیح بھی ہے ۔ یہ مسئلہ بھی یاد رہے کہ تمام علماء امت کا اتفاق ہے کہ جب خون حیض کا آنا رُک جائے ، مدت حیض گزر جائے پھر بھی اس کے خاوند کو اپنی بیوی سے مجامعت کرنی حلال نہیں جب تک وہ غسل نہ کر لے ، ہاں اگر وہ معذور ہو اور غسل کے عوض تیمم کرنا اسے جائز ہو تو تیمم کر لے ۔ اس کے بعد اس کے پاس اس کا خاوند آ سکتا ہے ۔ ہاں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ان تمام علماء کے مخالف ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ جب حیض زیادہ سے زیادہ دِنوں تک آخری معیاد یعنی دس دن تک رہ کر بند ہو گیا تو اس کے خاوند اس سے صحبت کرنا حلال ہے ، گو اس نے غسل نہ کیا ہو ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ تو لفظ «یَطْہُرْنَ» کا اس سے مراد خون حیض کا بند ہونا ہے اور «تَطَہَّرْنَ» سے مراد غسل کرنا ہے ۔ مجاہد ، عکرمہ ، حسن ، مقاتل بن حیان ، لیث بن سعد رحمہ اللہ علیہم وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں ، (تفسیر ابن ابی حاتم:682/2) پھر ارشاد ہوتا ہے اس جگہ سے آؤ جہاں سے آنے کا حکم اللہ نے تمہیں دیا ہے ، مراد اس سے آگے کی جگہ ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ بہت سے مفسرین نے اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں کہ مراد اس سے بچوں کے تولد ہونے کی جگہ ہے ، (تفسیر ابن ابی حاتم:282/2) اس کے سوا اور جگہ یعنی پاخانہ کی جگہ جانا حرام ہے ، ایسا کرنے سے حد سے تجاوز کرنے والے ہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے کہ مطلب یہ ہے کہ جس جگہ سے حالت حیض میں تم روکے گئے تھے اب وہ جگہ تمہارے لیے حلال ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ پاخانہ کی جگہ وطی کرنا حرام ہے ۔ اس کا مفصل بیان بھی آتا ہے ان شاءاللہ ۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ پاکیزگی کی حالت میں آؤ جبکہ حیض سے نکل آئیں اس لیے اس کے بعد کے جملہ میں ہے کہ گناہوں سے توبہ کرنے والوں ، اس حالت میں جماع سے باز رہنے والوں ، گندگیوں اور ناپاکیوں سے بچنے والوں ، حیض کی حالت میں اپنی بیوی سے نہ ملنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے ۔ اسی طرح دوسری جگہ سے محفوظ رہنے والوں کو بھی پروردگار اپنا محبوب بنا لیتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں یعنی اولاد ہونے کی جگہ تم اپنی کھیتی میں جیسے بھی چاہو آؤ یعنی جگہ تو وہی ایک ہو ، طریقہ خواہ کوئی بھی ہو ، سامنے کر کے یا اس کے خلاف ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ یہود کہتے تھے کہ جب عورت سے مجامعت سامنے رخ کر کے نہ کی جائے اور حمل ٹھہر جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے ۔ (صحیح بخاری:4528) ان کی تردید میں یہ جملہ نازل ہوا کہ مرد کو اختیار ہے ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہودیوں نے یہی بات مسلمانوں سے بھی کہی تھی ، ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا کہ خواہ سامنے سے آئے خواہ پیچھے سے لیکن جگہ ایک ہی رہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:693/2) ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے پوچھا کہ ہم اپنی عورتوں کے پاس کیسے آئیں اور کیا چھوڑیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ تیری کھیتی ہے جس طرح چاہو آؤ ، ہاں اس کے منہ پر نہ مار ، زیادہ برا نہ کہہ ، اس سے روٹھ کر الگ نہ ہو جا ، ایک ہی گھر میں رہ ۔ (سنن ابوداود:2143 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) ابن ابی حاکم میں ہے کہ حمیر کے قبیلہ کے ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا کہ مجھے اپنی بیویوں سے زیادہ محبت ہے تو اس کے بارے میں احکام مجھے بتائے ، اس پر یہ حکم نازل ہوا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:4351:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ چند انصاریوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا تھا ، (مسند احمد:268/1:ضعیف) طحاوی کی کتاب مشکل الحدیث میں ہے ایک شخص نے اپنی بیوی سے الٹا کر کے مباشرت کی تھی ، لوگوں نے اسے برا بھلا کہا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:4337:ضعیف) امسند احمد میں ہے کہ عبداللہ بن سابط سیدنا حفصہ بن عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور کہا میں ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں لیکن شرم آتی ہے ، فرمایا بھتیجے تم نہ شرماؤ اور جو پوچھنا ہو پوچھ لو ، کہا فرمائیے عورتوں کے پیچھے کی طرف سے جماع کرنا جائز ہے ؟ فرمایا سنو مجھ سے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے کہ انصار عورتوں کو الٹا لٹایا کرتے تھے اور یہود کہتے تھے کہ اس طرح سے بچہ بھینگا ہوتا ہے ، جب مہاجر مدینہ شریف آئے اور یہاں کی عورتوں سے ان کا نکاح ہوا اور انہوں نے بھی یہی کرنا چاہا تو ایک عورت نے اپنے خاوند کی بات نہ مانی اور کہا جب تک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ واقعہ بیان نہ کر لوں تیری بات نہ مانوں گی چنانچہ وہ بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئی ، سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بٹھایا اور کہا ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آ جائیں گے ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو انصاریہ عورت شرمندگی کی وجہ سے نہ پوچھ سکی اور واپس چلی گئی لیکن ام المؤمنین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصاریہ عورت کو بلا لو ، پھر یہ آیت پڑھ کر سنائی اور فرمایا جگہ ایک ہی ہو ۔ (مسند احمد:305/6) مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر بن خطاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم میں تو ہلاک ہو گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہے ؟ کہا ، میں نے رات کو اپنی سواری الٹی کر دی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا ۔ اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سامنے سے آ ، پیچھے سے آ ، اختیار ہے لیکن حیض کی حالت میں نہ آ اور پاخانہ کی جگہ نہ آ ۔ (مسند احمد:297/1:حسن) انصار والا واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ بھی مروی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو اللہ بخشے ، انہیں کچھ وہم سا ہو گیا ۔ بات یہ ہے کہ انصاریوں کی جماعت پہلے بت پرست تھی اور یہودی اہل کتاب تھے ۔ بت پرست لوگ ان کی فضیلت اور علمیت کے قائل تھے اور اکثر افعال میں ان کی بات مانا کرتے تھے ۔ یہودی ایک ہی طرح پر اپنی بیویوں سے ملتے تھے ۔ یہی عادت ان انصار کی بھی تھی ۔ ان کے برخلاف مکہ والے کسی خاص طریقے کے پابند نہ تھے ، وہ جس طرح جی چاہتا ملتے ۔ اسلام کے بعد مکہ والے مہاجر بن کر مدینہ میں انصار کے ہاں جب اترے تو ایک مکی مجاہد مرد نے ایک مدنی انصاریہ عورت سے نکاح کیا اور اپنے من بھاتے طریقے برتنے چاہے ، عورت نے انکار کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ اسی ایک مقررہ طریقہ کے علاوہ اجازت نہیں دیتی ۔ بات بڑھتے بڑھتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی اور یہ فرمان نازل ہوا ۔ پس سامنے سے پیچھے کی طرف سے اور جس طرح چاہے اختیار ہے ہاں جگہ ایک ہی ہو ۔ (سنن ابوداود:2164 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے قرآن شریف سیکھا اول سے آخر تک انہیں سنایا ، ایک آیت کی تفسیر اور مطلب پوچھا ۔ اس آیت پر پہنچ کر جب میں نے اس کا مطلب پوچھا تو انہوں نے یہی بیان کیا ( جو اوپر گزرا ) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا وہم یہ تھا کہ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ قرآن پڑھتے ہوئے کسی سے بولتے چالتے نہ تھے لیکن ایک دن تلاوت کرتے ہوئے جب اس آیت تک پہنچے تو اپنے شاگرد نافع رحمہ اللہ سے فرمایا جانتے ہو یہ آیت کس بارے میں نازل ہوئی ؟ انہوں نے کہا نہیں ، فرمایا یہ عورتوں کی دوسری جگہ کی وطی کے بارے میں اتری ہے ۔ (صحیح بخاری:4526) ایک روایت میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ایک شخص نے اپنی بیوی سے پیچھے سے کیا تھا جس پر اس آیت میں رخصت نازل ہوئی لیکن ایک تو اس میں محدثین نے کچھ علت بھی بیان کی ہے ، دوسرے اس کے معنی بھی یہی ہو سکتے ہیں کہ پیچھے کی طرف سے آگے کی جگہ میں کیا اور اوپر کی جو روایتیں ہیں وہ بھی سنداً صحیح نہیں بلکہ انہیں نافع رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ان سے کہا گیا کہ کیا آپ رحمہ اللہ یہ کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے وطی دبر کو جائز کیا ہے ؟ تو فرمایا لوگ جھوٹ کہتے ہیں ۔ پھر وہی انصاریہ عورت اور مہاجر والا واقعہ بیان کیا اور فرمایا سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ تو اس آیت کا یہ مطلب ارشاد فرماتے تھے ، اس روایت کی اسناد بھی بالکل صحیح ہے اور اس کے خلاف سند صحیح نہیں ، معنی مطلب بھی اور ہو سکتا ہے اور خود سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اس کے خلاف بھی مروی ہے ۔ وہ روایتیں عنقریب بیان ہوں گی ان شاءاللہ جن میں ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نہ یہ مباح ہے نہ حلال بلکہ حرام ہے ۔ تو یہ قول یعنی جواز کا بعض کا بعض فقہاء مدینہ وغیرہ کی طرف بھی منسوب ہے اور بعض لوگوں نے تو اسے امام مالک رحمہ اللہ کی طرف بھی منسوب کیا ہے لیکن اکثر لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ امام صاحب کا قول ہرگز یہ نہیں ، صحیح حدیثیں بکثرت اس فعل کی حرمت پر وارد ہیں ۔ ایک روایت میں ہے لوگو ! شرم و حیاء کرو اللہ تعالیٰ حق بات فرمانے سے شرم نہیں کرتا ۔ عورت کے پاخانہ کی جگہ وطی نہ کرو ۔(مسند احمد:213/5:صحیح) دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حرکت سے لوگوں کو منع فرمایا ۔(مسند احمد:213/5:صحیح بالشواھد) اور روایت میں ہے کہ جو شخص کسی عورت یا مرد کے ساتھ یہ کام کرے اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نہیں دیکھے گا۔(سنن ترمذی:1165،قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شخص یہ مسئلہ پوچھتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کیا تو کفر کرنے کی بابت سوال کرتا ہے ؟ ایک شخص نے آپ سے آ کر کہا کہ میں نے آیت «أَنَّیٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِکُمْ» ( البقرہ : 223 ) کا یہ مطلب سمجھا اور میں نے اس پر عمل کیا تو آپ ناراض ہوئے اور اسے برا بھلا کہا اور فرمایا کہ مطلب یہ ہے کہ خواہ کھڑے ہو کر ، خواہ بیٹھ کر چت خواہ پٹ لیکن جگہ وہی ایک ہو ، ایک اور مرفوع حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنی بیوی سے پاخانہ کی جگہ وطی کے وہ چھوٹا لوطی ہے۔(مسند احمد:210/2:صحیح) سیدنا ابودردار رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ کفار کا کام ہے ۔(مسند احمد:210/2:موقوف) سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کا یہ فرمان بھی منقول ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان سے فرمائے گا کہ جہنمیوں کے ساتھ جہنم میں چلے جاؤ ۔ ایک تو اغلام بازی کرنے والا خواہ وہ اوپر والا ہو خواہ نیچے والا ہو ، اور اپنے ہاتھ سے مشت زنی کرنے والا ، اور چوپائے جانور سے یہ کام کرنے والا اور عورت کی دبر میں وطی کرنے والا اور عورت اور اس کی بیٹی دونوں سے نکاح کرنے والا اور اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنے والا اور ہمسایہ کو ستانے والا ، یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت کرے ، (ارواءالغلیل59/8:ضعیف جداً) لیکن اس کی سند میں ابن لہیعہ اور ان کے استاد دونوں ضعیف ہیں ، مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنی بیوی سے دوسرے راستے وطی کرے اسے کو اللہ تعالیٰ نظرِ رحمت سے نہیں دیکھے گا ۔ (مسند احمد:272/2:صحیح) مسند احمد اور سنن میں مروی ہے کہ جو شخص حائضہ عورت سے جماع کرے یا غیر جگہ کرے یا کاہن کے پاس جائے اور اسے سچا سمجھے ، اس نے اس چیز کے ساتھ کفر کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر اتری ہے ۔ (سنن ابوداود:3904 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو ضعیف بتاتے ہیں ، ترمذی میں روایت ہے کہ ابوسلمہ بھی دبر کی وطی کو حرام بتاتے تھے ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لوگوں کا اپنی بیوی سے یہ کام کرنا کفر ہے ۔ (نسائی فی السنن الکبریٰ:1910) ایک مرفوع حدیث میں اس معنی کی مروی ہے لیکن زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہی ہے ، اور روایت میں ہے کہ یہ جگہ حرام ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما بھی یہی فرماتے ہیں ، سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے جب یہ بات پوچھی گئی تو آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا بڑا کمینہ وہ شخص ہے ، دیکھو قرآن میں ہے کہ لوطیوں سے کہا گیا تم وہ بدکاری کرتے ہو جس کی طرف کسی نے تم سے پہلے توجہ نہیں کی ، پس صحیح احادیث اور صحابہ کرام سے بہت سی روایتوں اور سندوں سے اس فعل کی حرمت مروی ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسے حرام کہتے ہیں ۔ چنانچہ دارمی میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہما سے ایک مرتبہ یہ سال ہوا تو آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا کیا مسلمان بھی ایسا کر سکتا ہے ؟ (دارمی277/1) اس کی اسناد صحیح ہے اور حکم بھی حرمت کا صاف ہے ، پس غیر صحیح اور مختلف معنی والی روایتوں میں پڑ کر اتنے جلیل القدر صحابی کی طرف ایک ایسا گندا مسئلہ منسوب کرنا ٹھیک نہیں ۔ گو کہ روایتیں اس قسم کی بھی ملتی ہیں ، امام مالک رحمہ اللہ ! سو ان کی طرف بھی اس مسئلہ کی نسبت صحیح نہیں بلکہ معمر بن عیسیٰ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام صاحب اسے حرام جانتے تھے ، اسرائیل بن روح نے آپ سے ایک مرتبہ یہی سوال کیا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا تم بےسمجھ ہو ، بوائی کھیت میں ہی ہوتی ہے ، خبردار شرمگاہ کے سوا اور جگہ سے بچو ۔ سائل نے کہا لوگ تو کہتے ہیں کہ آپ رحمہ اللہ اس فعل کو جائز کہتے ہیں ۔ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا جھوٹے ہیں مجھ پر تہمت باندھتے ہیں ۔ امام مالک سے اس کی حرمت ثابت ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ، شافعی رحمہ اللہ ، احمد رحمہ اللہ اور ان کے تمام شاگردوں اور ساتھی ، سعید بن مسیب ، ابوسلمہ ، عکرمہ ، عطاء ، سعید بن جبیر ، عروہ بن زبیر ، مجاہد ، حسن رحمہ اللہ علیہم وغیرہ سلف صالحین سب کے سب اسے حرام کہتے ہیں اور اس بارے میں سخت تشدد کرتے ہیں بلکہ بعض تو اسے کفر کہتے ہیں ، جمہور علماء کرام کا بھی اس کی حرمت پر اجماع ہے ، گو بعض لوگوں نے فقہاء مدینہ بلکہ امام مالک رحمہ اللہ سے بھی اس کی حلت نقل کی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ۔ عبدالرحمٰن بن قاسم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ کسی دیندار شخص کو میں نے تو اس کی حرمت میں شک کرنے والا نہیں پایا ، پھر آیت «نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّیٰ شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِکُمْ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوا أَنَّکُم مٰلَاقُوہُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِینَ» ( البقرہ : 223 ) پڑھ کر فرمایا خود یہ لفظ «حرث» ہی اس کی حرمت ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کیونکہ وہ دوسری جگہ کھیتی کی جگہ نہیں ، کھیتی میں جانے کے طریقہ کا اختیار ہے نہ کہ جگہ بدلنے کا ۔ گو امام مالک رحمہ اللہ سے اس کے مباح ہونے کی روایتیں بھی منقول ہیں لیکن ان کی سندوں میں سخت ضعف ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ٹھیک اس طرح امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت لوگوں نے گھڑ لی ہے حالانکہ انہوں نے اپنی چھ کتابوں میں کھلے لفظوں اسے حرام لکھا ہے ۔ پھر اللہ فرماتا ہے اپنے لیے کچھ آگے بھی بھیجو یعنی ممنوعات سے بچو نیکیاں کرو تاکہ ثواب آگے جائے ، اللہ سے ڈرو اس سے ملنا ہے وہ حساب کتاب لے گا ، ایماندر ہر حال میں خوشیاں منائیں ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ بھی مطلب ہے کہ جب جماع کا ارادہ کرے ، یہ دعا «بِاسْمِ اللہِ اللہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبْ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا ، فَإِنَّہُ إِنْ یُقَدَّرْ بَیْنَہُمَا وَلَدٌ فِی ذَلِکَ لَمْ یَضُرَّہُ شَیْطَانٌ أَبَدًا» پڑھے یعنی اے اللہ تو ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان سے بچا لے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر اس جماع سے نطفہ قرار پکڑ گیا تو اس بچے کو شیطان ہرگز کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گا ۔ (صحیح بخاری:141)