قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنفَاقِ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ قَتُورًا
تو کہہ ، اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو اس خوف سے کہ سب رحمتیں خرچ نہ ہوجائیں انہیں بند ہی کر رکھتے اور انسان دل کا تنگ ہے (ف ٢) ۔
انسانی فطرت کا نفسیاتی تجزیہ انسانی طبیعت کا خاصہ بیان ہو رہا ہے کہ رحمت الٰہی جیسی نہ کم ہونے والی چیزوں پر بھی اگر یہ قابض ہو جائے تو وہاں بھی اپنی بخیلی اور تنگ دلی نہ چھوڑے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ«أَمْ لَہُمْ نَصِیبٌ مِّنَ الْمُلْکِ فَإِذًا لَّا یُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِیرًا » ۱؎ (4-النساء:53) ’ اگر ملک کے کسی حصے کے یہ مالک ہو جائیں تو کسی کو ایک کوڑی پرکھنے کو نہ دیں ۔ ‘ پس یہ انسانی طبیعت ہے ۔ ہاں جو اللہ کی طرف سے ہدایت کئے جائیں اور توفیق خیر دئیے جائیں ، وہ اس بدخصلت سے نفرت کرتے ہیں ، وہ سخی اور دوسروں کا بھلا کرنے والے ہوتے ہیں ۔ « إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ ہَلُوعًا * إِذَا مَسَّہُ الشَّرٰ جَزُوعًا * وَإِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوعًا * إِلَّا الْمُصَلِّینَ » ۱؎ (70-المعارج:19-22) ’ انسان بڑا ہی جلد باز ہے ، تکلیف کے وقت لڑکھڑا جاتا ہے اور راحت کے وقت پھول جاتا ہے ‘ اور دوسروں کے فائدہ سے اپنے ہاتھ روکنے لگتا ہے ، ہاں نمازی لوگ اس سے بری ہیں الخ ۔ ایسی آیتیں قرآن میں اور بھی بہت سی ہیں ۔ اس سے اللہ کے فضل و کرم ، اس کی بخشش و رحم کا پتہ چلتا ہے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ { دن رات کا خرچ اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اس میں کوئی کمی نہیں لاتا ۔ ابتداء سے اب تک کے خرچ نے بھی اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں کی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4684)