وَمَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِهِ ۖ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا ۖ مَّأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا
اور جسے اللہ ہدایت کرے وہی ہدایت پر ہے اور جسے گمراہ کرے ان کے لئے اس کے سوا تو کسی کو رفیق نہ پائے گا ، اور ہم قیامت کے دن انہیں اوندھے منہ (ف ٢) اندھے اور گونگے اور بہرے کرکے اٹھائیں گے ۔ ان کا ٹھکاناہ جہنم ہے جب جہنم بجھنے لگے گی ہم ان پر زیادہ آگ بھڑکادیں گے ۔
میدان حشر کا ایک ہولناک منظر اللہ تعالیٰ اس بات کو بیان فرماتا ہے کہ تمام مخلوق میں تصرف صرف اسی کا ہے ، اس کا کوئی حکم ٹل نہیں سکتا ، «مَن یَہْدِ اللہُ فَہُوَ الْمُہْتَدِ ۖ وَمَن یُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَہُ وَلِیًّا مٰرْشِدًا» ۱؎ (18-الکہف:17) ’ اس کے راہ دکھائے ہوئے کو کوئی بہکا نہیں سکتا ، نہ اس کے بہکائے ہوئے کی کوئی راہنمائی کر سکتا ہے ‘ ۔ اس کا ولی اور مرشد کوئی نہیں بن سکتا ۔ ہم انہیں اوندھے منہ میدان قیامت [ محشر کے مجمع ] میں لائیں گے ۔ مسند احمد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا ، یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ، جس نے پیروں پر چلایا ہے ، وہ سر کے بل بھی چلا سکتا ہے ۔ } یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4760) مسند میں ہے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے بنی غفار قبیلے کے لوگو سچ کہو اور قسمیں نہ کھاؤ ، صادق مصدوق پیغمبر نے مجھے یہ حدیث سنائی ہے کہ { لوگ تین قسم کے بنا کر حشر میں لائے جائیں گے ۔ ایک فوج تو کھانے پینے اوڑھنے والی ، ایک چلنے اور دوڑنے والی ، ایک وہ جنہیں فرشتے اوندھے منہ گھیسٹ کر جہنم کے سامنے جمع کریں گے ۔ لوگوں نے کہا دو قسمیں تو سمجھ میں آ گئیں لیکن یہ چلنے اور دوڑنے والے سمجھ میں نہیں آئے ۔ آپ نے فرمایا سواریوں پر آفت آ جائے گی یہاں تک کہ ایک انسان اپنا ہرا بھرا باغ دے کر پالان والی اونٹنی خریدنا چاہے گا لیکن نہ مل سکے گی ۔ } ۱؎ (مسند احمد:164/5:اسنادہ قوی) یہ اس وقت نابینا ہوں گے ، بے زبان ہوں گے ، کچھ بھی نہ سن سکیں گے ، غرض مختلف حال ہوں گے اور گناہوں کی شامت میں گناہوں کے مطابق گرفتار کئے جائیں گے ۔ دنیا میں حق سے اندھے بہرے اور گونگے بنے رہے ، آج سخت احتیاج والے دن سچ مچ اندھے بہرے گونگے بنا دئیے گئے ۔ ان کا اصلی ٹھکانا ، گھوم پھر کر آنے اور رہنے سہنے بسنے ٹھہرنے کی جگہ جہنم قرار دی گئی ۔ وہاں کی آگ جہاں مدھم پڑنے کو آئی اور بھڑکا دی گئی سخت تیز کر دی گئی ۔ جیسے فرمایا آیت « فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَکُمْ اِلَّا عَذَابًا » ۱؎ (78-النبأ:30) ’ یعنی اب سزا برداشت کرو ۔ سوائے عذاب کے کوئی چیز تمہیں زیادہ نہ دی جائے گی ۔ ‘