قَالَ اذْهَبْ فَمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَّوْفُورًا
فرمایا ، چلا جا ، ان میں سے جو تیرے تابع ہوگا تو تم سب کی سزا دوزخ ہوگی ، پورا بدلہ ۔
شیطانی آواز کا بہکاوا ابلیس نے اللہ سے مہلت چاہی ، اللہ تعالیٰ نے منظور فرمالی اور ارشاد ہوا کہ«قَالَ فَإِنَّکَ مِنَ الْمُنظَرِینَ * إِلَیٰ یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ » ۱؎ (15-الحجر:37-38) ’ وقت معلوم تک مہلت ہے ‘ تیری اور تیرے تابعداروں کی برائیوں کے بدلہ جہنم ہے ، جو پوری سزا ہے ۔ اپنی آواز سے جسے تو بہکا سکے بہکا لے یعنی گانے اور تماشوں سے انہیں بہکاتا پھر ۔ جو بھی اللہ کی نافرمانی کی طرف بلانے والی صدا ہو وہ شیطانی آواز ہے ۔ اسی طرح تو اپنے پیادے اور سوار لے کر جس پر تجھ سے حملہ ہوسکے حملہ کرلے ۔ «رَجِلِ» جمع ہے «راجل» کی جیسے رکب جمع ہے راکب کی اور صحب جمع ہے صاحب کی ۔ مطلب یہ ہے کہ جس قدر تجھ سے ہو سکے ان پر اپنا تسلط اور اقتدار جما ۔ یہ امر قدری ہے نہ کہ حکم ۔ شیطانوں کی یہی خصلت ہے کہ وہ بندگان رب کو بھڑکاتے اور بہکاتے رہتے ہیں ۔ انہیں گناہوں پر آمادہ کرتے رہتے ہیں ۔ اللہ کی معصیت میں جو سواری پر ہو اور پیدل ہو ، وہ شیطانی لشکر میں ہے ۔ ایسے جن بھی ہیں اور انسان بھی ہیں جو اس کے مطیع ہیں ۔ جب کسی پر آوازیں اٹھائی جائیں تو عرب کہتے ہیں ” اجلب فلان علی فلان “ ۔ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ گھوڑ دوڑ میں جلب نہیں ، } ۱؎ (سنن ابوداود:2581،قال الشیخ الألبانی:صحیح) وہ بھی اسی سے ماخوذ ہے ۔ جلبہ کا اشتقاق بھی اسی سے ہے یعنی آوازوں کا بلند ہونا ۔ ان کے مال اور اولاد میں بھی تو شریک رہ ۔ یعنی اللہ کی نافرمانیوں میں ان کا مال خرچ کرا ، سود خوری ان سے کرا ، برائی سے مال جمع کریں اور حرام کاریوں میں خرچ کریں ۔ حلال جانوروں کو اپنی خواہش سے حرام قرار دیں وغیرہ ۔ اولاد میں شرکت یہ ہے مثلا زناکاری جس سے اولاد ہو ۔ جو اولاد بچپن میں بوجہ بیوقوفی ان کے ماں باپ نے زندہ درگور کر دی ہو یا مار ڈالی ہو یا اسے یہودی نصرانی مجوسی وغیرہ بنا دیا ہو ۔ اولادوں کے نام عبد الحارث ، عبد الشمس اور عبد فلاں رکھا ہو ۔ غرض کسی صورت میں بھی شیطان کو اس میں داخل کیا ہو ، یا اس کو ساتھ کیا ہو ، یہی شیطان کی شرکت ہے ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ { اللہ عز و جل فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو ایک طرف موحد پیدا کیا پھر شیطان نے آکر انہیں بہکا دیا اور حلال چیزیں حرام کر دیں ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2865) بخاری و مسلم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں سے جو اپنی بیوی کے پاس جانے کا ارادہ کرے یہ پڑھ لے « اللَّہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ ، وَجَنِّبْ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا » ” یعنی یا اللہ تو ہمیں شیطان سے بچا اور اسے بھی جو تو ہمیں عطا فرمائے ۔ “ تو اگر اس میں کوئی بچہ اللہ کی طرف سے ٹھیر جائے گا تو اسے ہرگز ہرگز کبھی بھی شیطان کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:141) پھر فرماتا ہے کہ جا تو انہیں دھوکے کے جھوٹے وعدے دیا کر ، چنانچہ قیامت کے دن یہ خود کہے گا کہ اللہ کے وعدے تو سب سچے تھے اور میرے وعدے سب غلط تھے ۔ پھر فرماتا ہے کہ میرے مومن بندے میری حفاظت میں ہیں ، میں انہیں شیطان رجیم سے بچاتا رہوں گا ۔ اللہ کی وکالت اس کی حفاظت اس کی نصرت اس کی تائید بندوں کو کافی ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { مومن اپنے شیطان پر اس طرح قابو پالیتا ہے جیسے وہ شخص جو کسی جانور کو لگام چڑھائے ہوئے ہو ۔ } ۱؎ (مسند احمد:380/2:ضعیف)